Maktaba Wahhabi

840 - 868
کی باقی فوج کو بھی بد دل کر کے سلطان بایزید ثانی کی فتح کا موجب ہو گئے اس مرتبہ شکست کھا کر جمشید کو مصر کی طرف جاتے ہوئے شرم دامن گیر ہوئی اور اس نے کہا کہ اب سلطان مصر اور اپنی بیوی اور والدہ کو منہ دکھانے کا موقع نہیں رہا اگر وہ مصر چلا جاتا، تو یقینا چند روز ہی کے بعد ایسا وقت آ جاتا کہ سلطنت عثمانیہ کے تمام سپہ سالاران افواج متفقہ طور پر اس کو مصر سے قسطنطنیہ لے جانے کی کوشش کرتے اور تخت سلطنت پر بٹھاتے مگر قضا و قدر کو کچھ اور ہی منظور تھا، جمشید نے بجائے مصر کے اس بات کی کوشش کی کہ کسی طرح سلطنت عثمانیہ کے یورپی حصے میں پہنچ کر اور وہاں کے سرداروں نیز سرحد کے عیسائی سلاطین سے امداد حاصل کر کے جنگ و پیکار کا سلسلہ جاری کروں اس شکست کے بعد بھی اس کی حالت بہت نازک ہو گئی تھی اور تیس چالیس سے زیادہ رفیق اس کے ساتھ نہ تھے اس لیے وہ چاہتا تھا کہ کسی جگہ دم لینے اور اپنی حالت درست کرنے کا موقع ملے یہ موقع اس کو مصر ہی میں خوب مل سکتا تھا جہاں سلطان مصر اس کی ہر طرح مدد کرنے کو تیار تھا مگر اس نے روڈس کے حکمران عیسائیوں کی پارلیمنٹ کو لکھا کہ کیا تم اس بات کی اجازت دے سکتے ہو کہ اس تمہارے جزیرے میں چند روز قیام کر کے پھر یونان و البانیا کی طرف چلا جاؤں اور اپنے ملک کو حاصل کرنے کی کوشش کروں اس پیغام کو سنتے ہی روڈس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور ان مقدس عیسائیوں نے جمشید کے اس ارادہ کو نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر عیسائی سلاطین کے چہروں پر ذالت و کمینگی کا سیاہ پوڈر ملنے کے لیے ایک شیطانی منصوبہ سوچا، جمشید ممکن تھا کہ اپنے روڈس جانے کے ارادہ پر نظر ثانی کرتا اور ملک شام میں مقیم رہ کر چند روز انجام اور عواقب امور کو سوچتا اور اس عرصہ میں سلطان مصر باصرار اس کو مصر واپس بلاتا اور اس کی ماں اور بیوی کی محبت اس کو مصر کی طرف کھینچتی، لیکن روڈس کی پارلیمنٹ کے صدر مسمی ڈابسن نے فوراً جمشید کو لکھا کہ ہم آپ کو سلطنت عثمانیہ کا سلطان تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی تشریف آوری ہمارے لیے موجب عزت و افتخار ہو گی اور میں اپنی پارلیمنٹ کی جانب سے آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ ہماری عزت افزائی کے لیے ضرور روڈس میں قدم رنجہ فرمائیں ، ہماری تمام فوج، تمام خزانہ تمام جہاز اور تمام طاقتیں آپ کی خدمت گزاری اور اعانت کے لیے وقف ہیں اور یہاں آپ کے لیے ہر قسم کا ضروری سامان اور طاقت موجود و مہیا کر دی جائے گی، اس جواب کو سن کر جمشید تامل نہیں کر سکتا تھا، وہ بلا توقف تیس آدمیوں کو ہمراہ لے کر روڈس کی طرف چل دیا۔ جزیرہ کے ساحل پر اتر کر اس نے دیکھا کہ استقبال کے لیے آدمی موجود ہیں وہاں سے وہ تزک و احتشام کے ساتھ دارالسلطنت میں پہنچایا گیا، ڈی آبسن یا ڈابسن نے جو پارلیمنٹ کا پریذیڈنٹ تھا، فوج کے ساتھ شان دار استقبال کیا اور شاہی مہمان کی حیثیت سے ٹھہرایا، لیکن بہت جلد شہزادہ جمشید کو معلوم ہو گیا
Flag Counter