حجام کو ایسے معزز قیدی تک پہنچنے سے پاسبانوں نے بھی روکنا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ اس سے کسی قسم کا اندیشہ نہیں ہو سکتا تھا آخر مصطفی نے موقع پا کر وہ زہر کی پڑیا شہرادہ جمشید کو کسی طرح دھوکا سے کھلا دی اور شہزادہ لا علاج بیماری میں مبتلا ہو گیا اور اس قدر کم زور و ناتوان ہو گیا کہ اسی حالت میں مصر سے اس کی ماں کا خط اس کے پاس پہنچا تو وہ اس خط کو کھول کر پڑھ بھی نہ سکا اور اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے کہ الٰہی اگر یہ کفار میرے ذریعہ سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں تو مجھ کو آج ہی اٹھالے اور مسلمانوں کو ان کے شر سے بچالے مزید کارروائی کی کہ زہر میں بجھے ہوئے استرے سے جمشید کی حجامت بنائی اور اس طرح بھی اس کی جلد کے نیچے زہر کا اثر پہنچا دیا تھا، جس روز جمشید نے یہ مذکورہ دعا مانگی اسی روز اس کی روح نے اس جسم خاکی کو چھوڑ کر عالم باقی کی طرف پرواز کی۔ یہ واقعہ ۹۰۱ھ کا ہے جمشید نے ۳۶ سال کی عمر میں تیرہ برس قید فرنگ کے مصائب جھیل کر وفات پائی اس کی لاش سلطان بایزید ثانی کی درخواست کے موافق عیسائیوں نے بایزید کے پاس بھیج دی اور بایزید نے اس کو بروصہ میں دفن کرایا، سلطان بایزید ثانی نے پوپ اسکندر کو بھی وعدہ کے موافق روپیہ ادا کر دیا اور اس حجام مصطفی نامی کو بلا کر اپنے ہاں نوکر رکھا اور پھر ترقی دے کر اس کو وزارت کے عہدہ جلیلہ تک پہنچا دیا، تعجب ہے کہ سلطان بایزید ثانی نے ابتدائی ایام میں تو اس ترکی سردار کو قتل کرا دیا تھا، جس نے جمشید کو راستے میں لوٹ لیا تھا مگر اب تیرہ سال کے بعد اس نے اس حجام کی ایسی قدر و عزت بڑھائی۔ جس نے جمشید کو قتل کر کے اس ترکی سردار سے زیادہ سنگین جرم کا ارتکاب کیا تھا، سلاطین عثمانیہ کے سلسلہ میں شہزادہ جمشید کی دل خراش داستان کو اس لیے مناسب تفصیل کے ساتھ اس جگہ درج کر دیا گیا ہے کہ اس داستان سے اس زمانہ کے عیسائی بادشاہوں کی اخلاقی حالت پر ایک تیز روشنی پڑتی ہے اور صاف طور پر ان عیسائی فرماں رواؤں کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس طرح شہزادہ جمشید پر انہوں نے قبضہ کیا اور کس طرح اس سے فوائد حاصل کیے اور کس طرح اس کو قابو رکھنے پر حریص تھے اور اپنے ان مادی اور نفسانی اغراض کے پورا کرنے میں کسی کو شرافت، انسانیت اور اپنے شاہانہ مرتبہ کے وقار کی پروا نہ تھی، ان کے دل میں رحم کا مادہ بھی نہ تھا اور ان پر سلطنت عثمانیہ کا اس قدر رعب طاری تھا اور وہ ایسے خائف و ترساں تھے کہ شہزادہ جمشید کے ذریعے سلطان عثمانی کو اپنے اوپر فوج کشی کرنے سے روکنے کی ذلت آمیز کوشش میں لگے ہوئے تھے، شہزادہ جمشید کی داستان کو یہاں ختم کر کے اب ہم کو سلطان بایزید ثانی کی طرف متوجہ ہونا چاہیے، جو اپنے باپ سلطان محمد خان ثانی فاتح قسطنطنیہ کے بعد تخت نشین ہوا۔
|