Maktaba Wahhabi

818 - 868
مشغول تھے۔ عثمانی جہازوں نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ ان جہازوں پر حملہ کر کے ان کی لمبی قطار کو توڑ دیا اور وہ ایک جگہ آگے پیچھے اور پہلو بہ پہلو اکھٹے ہو گئے۔ عثمانی جہازوں نے چاروں طرف سے ان کو گھیر لیا اور ان سے قریب پہنچ کر ہر چند کوشش کی کہ ان پر چڑھ کر ان کے ملاحوں کو قتل کریں اور قابض ہو جائیں مگر وہ جہاز اس قدر بڑے اور بلند تھے کہ عثمانی سپاہی اپنے چھوٹے اور پست جہازوں سے ان پر کسی طرح نہ چڑھ سکے۔ اول جب کہ عثمانی جہازوں نے ان کا محاصرہ کر لیا تھا تو دیکھنے والوں کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ پانچوں جہاز ضرور گرفتار ہو جائیں گے لیکن اسی کشمکش میں تھوڑی دیر کے بعد دیکھا گیا کہ وہ بڑی تیزی سے عثمانی کشتیوں کے بیچ میں سے نکل کر بندرگاہ کی طرف چلے محصورین نے فوراً زنجیر نیچی کر دی اور وہ گولڈن ہارن میں داخل ہو گئے اس کے بعد زنجیر کو پھر کھینچ لیا گیا اور عثمانی جہازوں کے حملہ کا کوئی خوف ان کو نہ رہا۔ سلطان محمد خان نے اپنی بحری فوج کی اس ناکامی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کو سخت ملال ہوا۔ اس نے اپنے امیر البحر کو بلا کر اپنے ہاتھ سے اس کو خوب مارا اور آئندہ کے لیے اس کو زیادہ مستعدر رہنے کا حکم دیا مگر امیر البحر کو بیچارے کی کوئی خطانہ تھی وہ اپنے چھوٹے چھوٹے جہازوں سے دیوہیکل جہازوں پر کس طرح قبضہ کر سکتا تھا۔ مگر سلطان کی تنبیہ اور امیر البحر کی بیش از بیش مستعدی کا یہ نتیجہ ضرور ہوا کہ اس کے بعد کسی اور جہاز کو یہ جرائت نہ ہوئی کہ وہ درہ دانیال کو عبور کر کے بحر مار مورا میں داخل ہو سکے ان پانچ جہازوں میں جو فوج سوار ہو کر آئی تھی یہ گویا قسطنطنیہ کے لیے آخری بیرونی امداد تھی۔ سلطان نے محاصرہ کے کام میں انتہا درجہ کی مستعدی دکھائی۔ بار بار نقصان اٹھانا پڑا۔ بار بار حملے ناکام اور بلا نتیجہ ثابت ہوئے۔ محصورین کی ہمتیں اپنی کامیابیوں کو دیکھ دیکھ کر اور بھی زیادہ بڑھ گئیں ۔ شہر کے اندر سامان مدافعت اور رسد کی مطلق کمی نہ تھی وہ برسوں محصور رہ کر مدافعت پر ثابت قدم رہنے کا ارادہ کر چکے تھے ان کو یہ بھی توقع تھی کہ ہنگری کا بادشاہ ہنی داس اپنے عہد نامہ صلح کو توڑ کر ضرور شمال کی جانب سے حملہ آور ہو گا اور قسطنطنیہ کا محاصرہ اٹھ جائے گا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے سلطان محمد خان ثانی کی جگہ اگر کوئی دوسرا شخص ہوتا تو ضرور محاصرہ اٹھا کر چل دیتا اور اس کام کو کسی دوسرے وقت پر ٹال دیتا۔ مگر سلطان محمد خان اپنے ارادہ کا پختہ اور ہمت کا دھنی تھا۔ اس کے عزم و استقلال میں مطلق کمی نہ آئی اور وہ ہر ایک ناکامی کو دیکھ کر اور بھی زیادہ اپنے ارادہ میں مضبوط ہوتا گیا۔ سلطان محمد خان جب قسطنطنیہ کے ارادے سے فوج لے کر چلا ہے تو اس نے ایک جماعت علماء فضلاء اور عابدوں زاہدوں کی بھی اپنے ہمراہ لی تھی۔ ان باخدا لوگوں کی صحبت سے مستفیض ہونے کا اس کو ابتداء ہی سے بہت شوق تھا۔ وہ اپنے باپ کی زندگی کے آخری چھ سال انہی لوگوں کے پاس رہا تھا اور
Flag Counter