Maktaba Wahhabi

819 - 868
انہی کے فیض صحبت سے اس کے ارادے میں استقلال اور حوصلہ میں بلندی پیدا ہوئی تھی دوران محاصرہ میں بھی وہ انہیں روحانی اور باخدا لوگوں سے مشورہ لینا کافی سمجھتا تھا۔ رفتہ رفتہ جب محاصرہ کو طول ہوا تو اس جوان العمرو جواں بخت سلطان کو وہ تدبیر سوجھی جو اس وقت تک کسی کو نہ سوجھی تھی۔ شہر کی ایک سمت جو سمندر یعنی گولڈن ہارن (شاخ زرین) کی وجہ سے محفوظ تھی اس پر محاصرے کی کوئی زد نہیں پڑ سکتی تھی۔ محاصرین کی تمام ہمت خشکی کی جانب صرف ہو رہی تھی۔ خاص سینٹ رومانس والے دروازے کی جانب آلات قلعہ کشائی زیادہ کام میں لائے جا رہے تھے لہٰذا شہر والے بھی اور اطراف سے بے فکر ہو کر اسی جانب اپنی پوری قوت مدافعت صرف کر رہے تھے۔ سلطان نے سوچا کہ شاخ زرین کی جانب سے بے فکر ہو کر اسی جانب یعنی سمندر کی طرف سے اگر شہر پر حملہ ہو سکے تو ان کی توجہ دو طرف تقسیم ہو سکے گی اور اس طرح فصیل شہر کو توڑ کر اس میں داخل ہونا ممکن ہو سکے گا۔ مگر سمندر کی جانب سے حملہ اس وقت ہو سکتا تھا کہ گولڈن ہارن (شاخ زرین) کے دہانہ پر آہنی زنجیر نہ ہوتی اور جہاز اس میں داخل ہو سکتے۔ گولڈن ہارن سے مشرق کی جانب قریباً دس میل چوڑی خشکی گردن تھی جس کے دوسری طرف آ بنائے باسفورس کا سمندر تھا اور اس میں سلطانی جہاز آزادی سے چلتے پھرتے تھے۔ سلطان نے ماہ جمادی الاول کی چودھویں تاریخ جب کہ ساری رات کی چاندنی تھی باسفورس سے لے کر بندرگاہ گولڈن ہارن تک برابر لکڑی کے تخت بچھوا دیئے باسفورس کے کنارے خشکی پر اسی جہازوں کو چڑھا لیا۔ ان اسی جہازوں کی ٹرین جب خشکی پر چڑھ آئی تو ان میں باقاعدہ ملاحوں اور بحری سپاہیوں کو سوار کر دیا پھر ہزارہا آدمیوں نے دونوں طرف سے ان جہازوں کو دھکیلنا شروع کیا اس طرف سے ہوا بھی موافق تھی چنانچہ جہازوں کے بادبان کھول دیئے گئے اور وہ لکڑی کے تختوں پر آدمیوں کے زیادہ زور لگائے بغیر خود بخود ہی چلنے لگے۔ اس چاندنی رات میں ہزارہا آدمیوں کا شور و غل، خوشی کے نعرے اور فوجی گیت اور باجے شہر والے سنتے تھے اور کچھ نہ سمجھ سکتے تھے کہ آج عثمانیہ لشکر میں یہ کیا ہو رہا ہے آخر صبح ہونے سے پہلے پہلے یہ دس میل کی مسافت خشکی میں طے کرا کر ان جہازوں کو بندرگاہ گولڈن ہارن میں لا کر ڈال دیا گیا۔ قسطنطین کے جہاز جو گولڈن ہارن میں موجود تھے وہ سب گولڈن ہارن کے دہانہ کے قریب اور اس آہنی زنجیر کے متصل صف بستہ تھے تاکہ کسی کو اندر داخل نہ ہونے دیں ۔ شہر کے متصل اور بندرگاہ کی نوک پر ان کو رہنے کی ضرورت نہ تھی۔ صبح ہونے پر شہر والوں نے دیکھا کہ عثمانیہ جہازوں نے فصیل شہر کے نیچے ایک پل بنا دیا ہے اور توپوں کو مناسب موقعوں پر رکھ کر اس طرف کی کمزور فصیل پر گولہ باری کرنے کی تیار کر رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر عیسائیوں کے حواس جاتے رہے۔ ادھر عیسائی جہازوں نے گولڈن ہارن کے دہانہ کی طرف
Flag Counter