گھوڑا زخمی ہو کر گر پڑا اور نیگ چری فوج کے ایک بوڑھے سپہ سالار خواجہ خیری نے فوراً آگے بڑھ کر لیڈ سلاس کا سر کاٹ لیا اور ایک نیزہ کی انی پر رکھ کر اس عہد نامہ کے ساتھ ہی بلند کر دیا۔ شاہ ہنگری کے اس کٹے ہوئے سر کو دیکھ کر عیسائی لشکر میں ابتری اور ہل چل مچ گئی اور وہ ترک جو پسپا ہوتے چلے جا رہے تھے اب ہمت کر کے آگے بڑھنے لگے۔ ہنی داس نے اس سر کو دیکھ کر اس کے چھیننے کی کوشش میں کئی زبردست حملے سلطانی لشکر کے اس حصہ پر کیے جہاں شاہ ہنگری کا وہ سر نیزہ پر رکھا ہوا تھا مگر اس کو ہر مرتبہ شکست ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں نے عیسائیوں سے میدان خالی کرا لیا۔ اس لڑائی میں کارڈنل جولین بھی جو پوپ کا نائب اور عیسائی مجاہدین کا سپہ سالار اور مسلمانوں کا سخت دشمن تھا مارا گیا بشپ اور دوسرے تمام سردار بھی اس لڑائی میں مقتول ہوئے۔ ایک ہنی داس اپنی جان بچا کر میدان سے بھاگا۔ ہنگری کی تمام فوج ترکوں کے ہاتھ سے مقتول ہوئی۔ اس فتح مبین کے بعد عثمانی فوج نے سرویا کو فتح کر کے اپنی حکومت میں شامل کیا اسی طرح بوسینیا بھی مفتوح اور وہاں کا شاہی خاندان نیست و نابود ہو کر سلطنت عثمانیہ میں شامل ہوا۔ عیسائیوں کی اس عہد شکنی کا بعض عیسائی خاندانوں پر یہ اثر پڑا کہ سرویا اور بوسینیا میں بہت سے عیسائی خود بخود مسلمان ہو گئے۔ سلطان مراد خان نے اپنی طرف سے مذہب کے معاملے میں کسی کو بھی مجبور نہیں کیا تھا۔ بلکہ اس نے اپنی تمام عیسائی رعایا کو مثل دوسرے سلاطین عثمانی کے وہی آزادانہ حقوق دے رکھے تھے جو مسلمانوں کو حاصل تھے۔
چند مہینے کی کوشش کے بعد سلطان مراد خان ثانی نے عیسائی باغیوں کو قرار واقعی سزائیں دے کر حدود سلطنت کو پہلے سے زیادہ وسیع اور مضبوط کر کے دوبارہ پھر خلوت نشینی اور زہد و عبادت اختیار کر کے اپنے بیٹے محمد خان کو تخت سلطنت پر بٹھا دیا۔ محمد خان کے دوبارہ تخت نشین ہونے کے بعد ینگ چری فوج نے اپنی تنخواہوں اور وظیفوں میں اضافہ کا مطالبہ کیا اور جب ان کے اس نامناسب مطالبہ کے پورا کرنے میں پس و پیش ہوا تو انہوں نے بغاوت کی دھمکیاں دینی شروع کیں اور لوٹ مار پر اتر آئے۔ اس طرح فوج کے خود سر ہونے سے سلطنت عثمانیہ میں دوبارہ سخت خطرناک اور نہایت پیچیدہ حالات پیدا ہو گئے۔ اراکین سلطنت نے یہ رنگ دیکھ کر دوبارہ سلطان مراد خان کی خدمت میں حاضر ہو کر التجا کی کہ بغیر آپ کی توجہ کے حالات درست نہ ہوں گے۔ چنانچہ سلطان مراد کو مجبوراً پھر اپنے خلوت خانے سے نکلنا اور ایشیائے کوچک سے ایڈریا نوپل آنا پڑا۔ یہ ۸۴۹ھ کا واقعہ ہے۔ جب سلطان مراد خان ثانی ایڈریا نوپل پہنچا تو فوج اور رعایا نے اس کا نہایت شاندار اور پرتپاک خیر مقدم کیا۔ اس مرتبہ تخت پر جلوس کرنے کے بعد سلطان مراد خان نے اپنے بیٹے محمد خان کو جو سال بھر کے اندر دو مرتبہ تخت نشین ہو چکا تھا ایشیائے
|