Maktaba Wahhabi

806 - 868
سے جنوب کی جانب متوجہ ہو کر شہر وارنا کا محاصرہ کر لیا اور بالآخر وارنا کو ہنی داس نے فتح کر لیا۔ اس سے پہلے عیسائیوں نے بڑی بے رحمی اور سفاکی مسلمانوں کے قتل عام میں دکھائی۔ عیسائیوں کی اس فوج کشی اور عہد شکنی کا حال فوراً ایشیائے کوچک میں سلطان مراد ثانی سے جو ترک سلطنت کے بعد گوشہ نشین ہو چکا تھا جا کر بیان کیا گیا اور اس سے استدعا کی گئی کہ آپ گوشہ عزلت سے قدم باہر نکالیں اور سلطنت عثمانیہ کو بچائیں ۔ چنانچہ مراد خان ثانی بلا تامل ایڈریا نوپل پہنچا اور وہاں سے وارنا کی طرف روانہ ہوا۔ عیسائی فتح مند لشکر وارنا کے قریب میدان میں خیمہ زن تھا اور اپنی فتح مقصدوری کا اس کو کامل یقین تھا کہ ہنی داس کے مخبروں نے آکر اس کو خبر سنائی کہ سلطان مراد خان گوشہ عزلت سے نکل کر اور چالیس ہزار بہادر سپاہیوں کو لے کر خود مقابلہ پر آ پہنچا ہے اور یہاں سے چار میل کے فاصلہ پر آکر خیمہ زن ہوا ہے یہ سنتے ہی ہنی داس اور شاہ ہنگری نے مجلس مشورت منعقد کی اور اس کے بعد صفوف جنگ کی آراستگی میں مصروف ہو گئے عیسائیوں کی فوج کے میسرہ میں ولیشیا کی فوج تھی ہنگری کے انتخابی سپاہی میمنہ پر مامور کیے گئے۔ کارڈنل جولین کے زیر اہتمام عیسائی مجاہدین کا ایک لشکر عظیم تھا۔ بادشاہ ہنگری اپنے ملک کے سرداروں اور بہادر سواروں کے ساتھ قلب لشکر میں تھا پولینڈ کی فوج سب سے پیچھے ایک مشہور بشپ کے زیر کمان تھی۔ ہنی داس اس تمام لشکر عظیم کا سپہ سالار اعظم تھا۔ سلطان مراد خان ثانی نے بھی اپنے میمنہ و میسرہ کو درست کیا اور اس صلح نامہ کی نقل کر کے نیزہ کی نوک پر رکھ کر اپنا علم بنایا جو شاہ ہنگری نے لکھ کر سلطان مراد خان کو دیا تھا۔ ۱۰ نومبر کو وارنا کے میدان میں یہ لڑائی شروع ہوئی جب کہ دو مہینے اور دس روز عیسائیوں کو عہد نامہ توڑے اور سلطنت عثمانیہ کے شہروں کو برباد کرتے ہوئے گذر چکے تھے۔ ہنی داس نے داہنی طرف سے عثمانی فوج کے ایشیائی دستوں پر اس زور شور کا حملہ کیا کہ ترکی لشکر کے پاؤں اکھڑ گئے دوسری طرف ولیشیا والوں نے بھی اسی طرح پر جوش حملہ کیا اور عثمانی فوج کا دوسرا بازو بھی قائم نہ رہ سکا۔ سلطان مراد خان ثانی جو اپنی رکابی فوج کے ساتھ پشت لشکر پر کھڑا ہوا یہ رنگ دیکھ رہا تھا سخت مضطرب ہوا اسی اثنا میں ہنگری کے بادشاہ لیڈ سلاس نے قلب عثمانی پر نہایت سخت حملہ کیا اور صفوں کو چیرتا ہوا اس مقام تک پہنچ گیا جہاں سلطان مراد خان ابھی تک اپنی جگہ پر قائم اور اپنی فوج کی ہزیمت اور عیسائیوں کے زبردست حملوں کو پریشانی کے عالم میں دیکھ رہا تھا۔ سلطان کو اپنی شکست فاش کا کامل یقین ہو چکا تھا اور وہ یہ سوچ رہا تھا کہ گھوڑا بھگا کر میدان جنگ سے اپنی جان بچا کر لے جائے یا دشمنوں کے لشکر پر حملہ آور ہو کر جام شہادت نوش کرے کہ سامنے سے لیڈ سلاس شاہ ہنگری سلطان کو بڑے کبرو نخوت کے ساتھ اپنے مقابلہ پر للکارتا ہوا نمودار ہوا۔ سلطان نے فوراً کمان میں ایک تیر جوڑ کر مارا جس سے شاہ ہنگری کا
Flag Counter