فتح کی خوشی میں ہنگری کے اندر ضیافتیں ہوتی تھیں تو ضیافت کے موقع پر ان ترک قیدیوں کی ایک تعداد لے جا کر ان لوگوں کے سامنے قتل کی جاتی تھی جو اس خوشی کی تقریب میں شریک ہوتے تھے۔ اس طرح گویا خوشی کے جلسوں میں ان ترک قیدیوں کا قتل کرنا ایک دل چسپ سامان تفریح سمجھا گیا تھا۔ سلطان مراد خان کے پاس ادھر اس مذکورہ شکست کی خبر پہنچی ادھر ایشیائے کوچک سے خبر آئی کہ قونیہ میں بغاوت کا جھنڈا بلند ہو گیا ہے جو سلطان کے لیے بے حد موجب خطر ہے۔ سلطان مراد خان نے ہنی داس اور ہنگریوں سے بدلہ لینے کے لیے اسی ہزار فوج دے کر اپنے ایک سپہ سالار کو روانہ کیا اور خود ایشیائے کوچک کی طرف روانہ ہوا یہ واقعہ ۸۴۷ھ کا ہے۔
ترکوں کی اس فوج کو شکست دینے اور ترکوں کو برا عظم یورپ سے نکالنے کے لیے یورپ میں اب کی مرتبہ ایسا جوش پیدا ہوا کہ اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا گیا تھا۔ ہنگری کا بادشاہ لیڈ سلاس اور ہنگری کا سپہ سالار ہنی داس اس قدر مشہور ہو گئے تھے اور ان کی بہادری کے افسافے اس طرح یورپ میں ہر جگہ پہنچ گئے تھے کہ ہر ایک ملک کے عیسائی نے ان کی فوج میں شریک ہونے اور مجاہد کہلانے کا شوق ظاہر کیا۔ روما کے پوپ جان اور اس کے سفیر کار ڈنیل جولین نے مجاہدین کے تیار کرنے اور اپنے وعظوں سے عیسائیوں کو اس لڑائی میں شریک کرنے کی بے حد ترغیب دی۔ ہنگری، سرویا، ولیشیا، پولینڈ، جرمنی، اٹلی، فرانس، آسٹریا، بوسینا، البانیا وغیرہ کی فوجیں ہنی داس کے جھنڈے کے نیچے آکر جمع ہو گئیں ۔ عثمانیوں کی فوج سے جب مقابلہ ہوا تو عیسائیوں کی اس بے شمار فوج نے ترکی فوج کو شکست دی۔ چار ہزار ترک گرفتار اور بہت سے شہید ہوئے۔ ہنی داس نے تعاقب کر کے شہر صوفیہ پر قبضہ کر لیا اور تمام رومیلیا کو تاخت و تاراج کر کے اور بے شمار مال غنیمت اور قیدی لے کر اپنے ملک کو واپس ہوا۔ حالانکہ اس کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ آگے بڑھ کر ایڈریا نوپل پر قبضہ کر لیتا۔ مگر ایڈریا نوپل پر حملہ آور ہونے کی اس کو جرائت نہ ہوئی۔ سلطان مراد خان ثانی نے اس شکست اور اپنے علاقوں کی تباہی کا حال ایشیائے کوچک میں سنا۔ وہ بہت جلد ۸۴۷ھ میں ایشیائے کوچک کی بغاوت فرو کرنے کے بعد ایڈریا نوپل میں آیا اور عیسائیوں سے انتقام لینے کی تدبیر سوچنے لگا۔ انہی ایام میں سلطان کا بڑا بیٹا علاؤ الدین فوت ہوا جس سے سلطان کو سخت صدمہ پہنچا اور اس کا دل سلطنت و حکومت سے برداشتہ ہو گیا۔ گذشتہ جنگ میں سلطان کا بہنوئی محمد چلپی ہنی ڈیز (ہنی داس) کی لڑائی میں گرفتار ہو گیا تھا لہٰذا اس کی بہن اور دوسرے عزیزوں نے سلطان کو مجبور کیا کہ جس طرح ہو محمد چلپی کو آزاد کرایا جائے۔ چنانچہ سلطان کو خط و کتابت کا سلسلہ ہنگری والوں کے ساتھ جاری کرنا پڑا۔ آخر اسی سلسلہ خط و کتابت نے یہ صورت اختیار کی کہ
|