اور اسپانس زبانوں کو بے حد مشقت اور عرق ریزی کے ساتھ سیکھا اور ان زبانوں میں عربی زبان کے متعدد لغات لکھ ڈالے۔ خلیفہ حکم ثانی کے عہد حکومت میں صرف قرطبہ کے کتب خانے میں چھ لاکھ کتابیں مختلف علوم و فنون کی موجود تھیں اور ہر کتاب پر خاص خلیفہ کے ہاتھ کا حاشیہ تحریر تھا۔ مسلمانوں نے تمام فلسفہ یونان کی کتابوں کا اپنی زبان میں ترجمہ کر ڈالا۔ ابن رشد جوار سطو پر بھی فضیلت رکھتا تھا اندلس ہی کا ایک مسلمان تھا۔ مسلمانوں نے علم ہیئت میں وہ ترقی کی اور ایسے رسد خانے قائم کیے کہ تمام یورپ کو انہی کے نقش قدم پر چلنا پڑا۔ اصطرلاب جو رسد خانوں کی روح رواں ہے اندلس کے مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ طب اور جراحی میں اندلسی مسلمانوں نے ایسی ترقی کی تھی کہ چند روز گذشتہ تک تمام یورپ انہی کی کتابوں سے فیض اٹھاتا تھا۔ علم حیوانات و نباتات میں اندلسی مسلمانوں کے کارنامے بے حد عظیم الشان ہیں ۔ قرطبہ اور غرناطہ میں علم حیوانات و نباتات کی تعلیم کے لیے خاص طور پر باغات اور کارخانے موجود تھے پٹ سن اور روئی سے کاغذ تیار کرنا اندلسی مسلمانوں نے ایجاد کیا۔ الفانسو یازدہم کی تاریخ میں لکھا ہے کہ ’’شہر کے مسلمان بہت سی گونجنے والی چیزیں اور لوہے کے گولے بہت بڑے بڑے سیب کے برابر پھینکتے تھے۔ یہ گولے اس قدر دور جاتے تھے کہ بعض فوج کے اس پار جا کر اور بعض فوج کے اندر گرتے تھے۔‘‘
اس بیان سے ثابت ہے کہ مسلمان جب توپ اور بارود کو استعمال کرتے تھے۔ عیسائی اس سے قطعاً ناواقف تھے۔ سنین الاسلام کا مصنف لکھتا ہے کہ ۴۴۱ھ میں اندلس کے مسلمانوں میں سے بعض نے امریکہ کو دریافت کیا تھا۔ مگر اس کی زیادہ شہرت نہ ہوئی۔ یہ شہرت کو لمبس کی تقدیر میں لکھی تھی جو بہت دنوں بعد امریکہ پہنچا تھا۔‘‘
مسلمانوں کے علمی ذوق و شوق نے تمام یورپ کے لیے ادب و فلسفہ اور صنعت و حرفت بلکہ تمام علوم و فنون کے دروازے کھول دیئے تھے۔ آٹھ سو برس تک مسلمان ہر چیز میں اہل یورپ کے استاد بنے رہے۔ عیسائی امراء زبان اور ہر چیز میں مسلمانوں کی تقلید کرنا اپنے لیے موجب فخر سمجھتے اور عربی نظم و نثر لکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ یہ انہی مسلمانوں کا اثر تھا کہ فرانسیسی اور اطالوی زبانوں میں اکثر وہ الفاظ جو جہاز رانی اور بحری انتظامات سے متعلق ہیں عربی ہیں ۔ اور یہ دلیل اس بات کی ہے کہ ان ممالک نے مسلمانوں ہی سے جہاز رانی سیکھی ہے۔ سیر و شکار کے متعلق بھی اکثر الفاظ عربی الاصل ہیں ۔ علم ہیئت کی اصطلاحیں اور دواؤں کے نام جو یورپ کی زبانوں میں رائج ہیں عربی ہیں ۔
غرض کہ اندلس کے مسلمان تمام یورپ کے استاد، تمام یورپ کے محسن اور تمام یورپ کو علم و حکمت اور ترقی و عزت کے طریقے بتانے والے اتالیق تھے آج یورپ اپنی کوئی بھی ایسی قابل فخر چیز پیش نہیں کر
|