Maktaba Wahhabi

594 - 868
دیتے اور عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں تک کو تہ تیغ کر دیتے تھے اپنے طرز عمل سے مسلمانوں نے آٹھ سو برس تک شائستگی کی تعلیم دی کہ فتح یاب ہونے پر بے گناہ رعایا کو کسی قسم کا بھی آزار نہیں پہنچانا چاہیے۔ زراعت کو مسلمانوں نے اس قدر ترقی دی تھی کہ یہ ایک مکمل فن بن گیا تھا ہر میوہ دار درخت اور زمین کی خاصیت و ماہیت سے واقفیت حاصل کی۔ اندلس کے ہزاروں لاکھوں میل مربع رقبوں کو جو بنجر اور ویران پڑے ہوئے تھے۔ مسلمانوں نے میوہ دار درختوں اور سر سبز و شاداب لہلہاتے ہوئے کھیتوں کی شکل میں تبدیل کر دیا۔ چاول، نیش کر، روئی، زعفران، انار، آڑو، شفتالو وغیرہ جو آج کل اندلس میں بکثرت پیدا ہوتے ہیں مسلمانوں ہی کے طفیل اندلس بلکہ تمام یورپ کو نصیب ہوئے۔ اندلوسیہ اور اشبیلیہ کے صوبوں میں زیتون اور خرما کی کاشت کو بڑی ترقی دی۔ سریش، غرناطہ اور مالقہ کے علاقوں میں انگوروں کی بڑی پیدا وار ہوتی تھی۔ زراعت کے ساتھ مسلمانان اندلس نے معدنیات کی تلاش میں بھی کوتاہی نہیں کی۔ سونا، چاندی، لوہا، فولاد، پارہ، کہربا، تانبا، یاقوت اور نیلم وغیرہ کی کانیں دریافت کیں اور یہ چیزیں بکثرت پیدا ہونے لگیں ۔ غرناطہ کی سلطنت اندلس میں مسلمانوں کی آخری نشانی تھی لیکن اس چھوٹی سی سلطنت نے بھی فن تعمیر اور قدر دانی علوم کے متعلق بڑی بڑی عظیم الشان یاد گاریں چھوڑی ہیں ۔ مسلمانوں نے ایسا عجیب و غریب سیمنٹ ایجاد کیا کہ قصر حمراء جو سلطنت غرناطہ کی نشانی دنیا میں باقی ہے آج تک اپنے مسالہ کی پختگی سے سیاحوں کو حیران کر دیتا ہے۔ قصر الحمراء کو شاہان غرناطہ نے بصرف زرکثیر شہر کے قریب ایک نہایت بلند ٹیلے پر جبل شلیر کی برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیوں کے سایہ میں تیار کیا تھا۔ اس کی چار دیواری کے اندر ایسے خوشنما سبز و شاداب باغات، نہر ہائے شیریں ، درخت ہائے میوہ دار تھے کہ چشم فلک نے اس کی نظیر نہ دیکھی تھی۔ اس قصر کی ہر ایک چیز قابل دید اور اس قدر حیرت انگیز ہے کہ دینا کے مشہور صناع و دستکار دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں ۔ اس کی بلند دیواروں کی گچ کی صفائی سنگ مر مر سے زیادہ چمک دار اور لوہے سے زیادہ مضبوط ہے۔ جالی دار دیواروں کی طرح طرح کی نازک گلکاریاں اور اس کی نئی وضع کی محرابوں سے ہر ایک لٹکی ہوئی قلم نزاکت کا اظہار کرتی ہے۔ مسلمانوں نے اندلس پر قابض و متصرف ہو کر تمام ملک میں دار العلوم، مدارس، رسدخانے اور عظیم الشان کتب خانے کھول دیئے تھے جہاں علمی تحقیقات کا ہر ایک سامان موجود رہتا ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں یونیورسٹیاں یا دارالعلوم اور چھوٹے قصبوں میں ابتدائی اور درمیانی درجے کے مدارس تھے۔ قرطبہ، اشبیلیہ، مالقہ، سرقسطہ، بشونہ، جیان، طلیطلہ وغیرہ بڑے بڑے شہروں میں دارالعلوم قائم تھے۔ جہاں اطالیہ، فرانس، جرمن، انگلستان وغیرہ ممالک کے طلباء اور شائقین علوم آتے اور برسوں رہ کر تعلیم پاتے تھے۔ عربوں نے یونانی، لاطینی
Flag Counter