Maktaba Wahhabi

596 - 868
سکتا جس میں بجا طور پر وہ مسلمانوں کار ہین منت نہ ہو۔ ان احسانات کا جو معاوضہ یورپ اور یورپ کے عیسائیوں نے مسلمانوں کو دیا وہ اوپر بیان ہو چکا ہے۔ اس جگہ ایک مرتبہ پھر اس بات کو یاد کر لینا چاہیے کہ مسلمانوں نے جب پہلی صدی ہجری میں اندلس کو فتح کیا تھا تو کسی عیسائی کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا تھا بلکہ عیسائی لوگ خود بخود اسلام کی خوبیوں کو دیکھ کر مذہب اسلام میں داخل ہوتے تھے۔ اب جب کہ عیسائیوں نے طاقت حاصل کی اور وہ مسلمانوں کو ان کے مذہب سے نہ پھیر سکے تو عیسائیوں نے لاکھوں مسلمانوں کو جو اندلس میں موجود تھے قتل کر ڈالا، آگ میں جلا دیا، اور پانی میں ڈبو دیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ملک اندلس جو مسلمانوں کے عہد حکومت میں دنیا کا سب سے زیادہ سر سبز و شاداب اور آباد ملک سمجھا جاتا تھا اور جس کی زرخیزی ضرب المثل تھی مسلمانوں کی بربادی کے بعد ایسا ویران و غیر آباد ہوا کہ آج تک ویرانی و نحوست نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا مسلمانوں کے زمانے میں پہاڑوں تک پر زراعت ہوتی تھی اور کوئی چپہ زمین کا بنجر نہ تھا۔ لیکن آج ہزار ہامیل مربع زمین کے قطعات ویران وبنجر پڑے ہوئے ہیں ۔ وہ ملک جو مسلمانوں کے عہد حکومت میں دنیا کا سب سے زیادہ قیمتی اور شاندار ملک تھا آج سب سے زیادہ منحوس اور بے حقیقت ملک سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں پر یہ مصائب محض اس لیے نازل ہوئے کہ انہوں نے کلام الٰہی کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ جس کی وجہ سے ان میں خود غرضی اور نااتفاقی پیدا ہوئی۔ پابندیٔ اسلام کے ترک ہونے کا یہ نتیجہ تھا کہ مسلمان سردار اپنے بھائی مسلمان سرداروں کی مخالفت میں عیسائیوں کے پاس جا کر ان سے مدد طلب کرنے میں کوئی باک و تامل نہ کرتے تھے۔ مسلمانوں نے خود عیسائیوں کے ہاتھوں سے خوشی خوشی مسلمانوں کو ذبح کرایا اور عیسائیوں کے دلوں سے رعب اسلامی کو مٹایا۔ اندلس کے مسلمانوں نے اپنی بداعمالیوں سے اپنے آپ کو مغضوب بنا لیا تھا۔ اسی لیے ان کو دنیا کے کسی حصے سے کوئی امداد نہ پہنچی اور کفار کے ہاتھوں سے فجار کو اللہ تعالیٰ نے سزا دلوائی۔ مسلمان جب کبھی اور جہاں کہیں دین اسلام سے ایسے غافل اور قرآن کریم سے بے تعلق ہوئے۔ ان پر ایسی ہی مصیبتیں نازل ہوئیں اور آئندہ بھی ہمیشہ مسلمانوں کی بربادی کے اسباب قرآن کریم کی طرف سے غافل ہو جانے ہی کی بداعمالی میں تلاش کیے جا سکیں گے۔ بجائے اس کے کہ ہم اندلس کے مسلمانوں کی تباہی پر نوحہ خوانی کریں ہم کو چاہیے کہ ان کے حالات سے عبرت آموز ہوں اور اپنی حالتوں میں اصلاح کی کوشش کریں ۔ سچے پکے مسلمان بن کر آپس میں بھائی بھائی بن جائیں اور متحد و متفق ہو کر سستی و کاہلی کو چھوڑ دیں اور مصروف سعی ہو جائیں کہ اسی کا نام زندگی اور اسی کا نام اللہ کی بندگی ہے۔
Flag Counter