کر کوفہ میں واپس آگئے، اور اہل بغداد بھی ان کی امداد پر آمادہ ہو گئے، حسین بن اسماعیل اپنا لشکر مرتب کر کے دوبارہ ابو الحسین یحییٰ بن عمر پر حملہ آور ہوا، کوفہ سے نکل کر یحییٰ نے مقابلہ کیا، سخت لڑائی کے بعد ابوالحسین یحییٰ بن عمر مارے گئے، ان کا سر کاٹ کر سامرہ میں خلیفہ مستعین کے پاس بھیجا گیا جس کو مستعین نے ایک صندوق میں بند کرا کر اسلحہ خانہ میں رکھوا دیا، ابو الحسن یحییٰ ۱۵ رجب ۲۵۰ھ کو مقتول ہوئے۔
ابوالحسین پر فتح یاب ہونے کے صلہ میں خلیفہ مستعین نے محمد بن عبداللہ بن طاہر کو طبرستان میں جاگیریں عطا فرمائیں جن میں ایک جاگیر حدود دیلم کے قریب تھی۔ اس جاگیر پر قبضہ کرنے کے لیے جب محمد بن عبداللہ کا عامل گیا تو رستم نامی ایک شخص نے مخالفت کی، آخر دیلم والے اس مخالفت میں رستم اور اس کے دونوں بیٹوں محمد و جعفر کے طرف دار ہو گئے۔
طبرستان میں اس زمانہ میں محمد بن ابراہیم علوی موجود تھے۔ محمد و جعفر دونوں بھائیوں نے ان کے پاس آکر کہا کہ آپ امارت کا دعویٰ کیجئے، ہم آپ کے حامی ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ تم رے میں جا کر حسن بن زید بن محمد بن اسمعیٰل بن حسن بن زید بن حسن سبط کی خدمت میں یہ درخواست پیش کرو وہ ہمارے سردار اور مقتدا ہیں ۔ محمد و جعفر نے اپنے باپ رستم سے آکر کہا، اس نے ایک آدمی رے بھیجا وہاں سے حسن بن زید طبرستان چلے آئے، یہاں دیلم، دربان وغیرہ سے لوگ آ آکر بیعت ہونے شروع ہوئے، ایک جم غفیر فراہم ہو گیا اور حسن بن زید نے علاقہ طبرستان پر قبضہ کرلیا، اس کے بعد رے بھی قبضہ میں آگیا۔
یہ خبر سن کر مستعین نے ہمدان کے بچانے کو ایک لشکر بھیجا جس کو شکست ہوئی اس کے بعد موسیٰ بن بغاکبیر کو دارالخلافہ سے مع فوج روانہ کیا گیا۔ اس نے طبرستان کو تو حسن بن زید کے قبضہ سے نکال لیا، دیلم پر حسن بن زید کا قبضہ رہا، موسیٰ وہاں سے رے کی طرف واپس چلا آیا۔
انہی ایام میں خلیفہ مستعین نے دلیل بن یعقوب نصرانی کو اپنا وزیر بنایا، چند روز کے بعد باغر نامی ایک ترک کو دلیل نصرانی وزیر سے کوئی شکایت پیدا ہوئی، اس معاملہ میں بغاصغیر اور وصیف نے باغر کو مجرم بتایا، خلیفہ نے اس کو قید کر دیا، ترکوں نے شورش برپا کی، ترکوں کی اس شورش کو دیکھ کر بغاصغیر نے باغر کو قتل کرا دیا، اس سے بجائے فرو ہونے کے شورش اور بھی ترقی کر گئی، تمام سامرا باغی ہو گیا اور ہر طرف سے بلوائیوں کے جھنڈے نظر آنے لگے، مجبوراً خلیفہ مستعین، بغاوصیف، شاہک اور احمد بن صالح بن شیر زاد سامرا سے نکل کر بغداد چلے آئے اور محرم ۲۵۱ھ میں بغداد کے اندر محمد بن عبداللہ بن طاہر کے مکان میں فروکش ہوئے، خلیفہ کے آنے کے بعد دفتر کے آدمی بھی وفا تر لے کر بغداد ہی آ گئے۔
|