طاہر نے بتدریج اپنے لشکر کو تمام شہر میں پھیلا دیا اور مدینۃ المنصور میں امین کو محصور کر لیا، امین نہایت صبر و استقلال سے محاصرہ کی سختیاں برداشت کرنے لگا، اراکین سلطنت میں سے صرف حاتم بن صفر، حسن حریشی اور محمد بن ابراہیم بن اغلب افریقی اس کے ہمراہ تھے، محمد بن ابراہیم نے امین سے کہا کہ اس گئی گزری حالت میں بھی سات ہزار سوار امیرالمومنین کے ہر ایک حکم کی تعمیل کو موجود ہیں ، مناسب یہ معلوم ہوتا ہے امراء اراکین کے لڑکوں کو منتخب کر کے ان کا افسر مقرر کریں اور کسی دروازے سے بحالت غفلت نکل کر جزیرہ و شام کی طرف چلے جائیں اور ایک جدید سلطنت کی بنیاد ڈالیں ممکن ہے کہ چند روز کے بعد عوام کا میلان طبع آپ کی جانب ہو جائے اور پھر کوئی اچھی صورت حصول مقصد کی پیدا ہو سکے، امین اس ارادے کے موافق عمل درآمد کر لیتا تو یقینا اس کا انجام اس انجام سے بہتر ہوتا جو ہوا۔
طاہر کو جب امین کے اس ارادے کی اطلاع ہوئی تو اس نے سلیمان بن منصور اور محمد بن عیسیٰ بن نہیک کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر تم نے امین کو اس ارادے سے باز نہ رکھا تو تمہارے لیے اچھا نہ ہو گا، ان لوگوں نے طاہر سے خائف ہو کر امین کی خدمت میں پہنچ کر عرض کیا کہ امیرالمومنین کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ اپنے آپ کو ابن اقلب اور ابن صقر کے قبضے میں دے دیں ، یہ لوگ خائن اور غیر معتمد ہیں ، مناسب یہ ہے کہ آپ ہرثمہ بن اعین سے امن طلب کر کے اس کے پاس چلے جائیں ، ابن صقر کو جب یہ بات معلوم ہوئی کہ خلیفہ امین ہرثمہ بن اعین سے امن طلب کر کے اپنے آپ کو اس کے سپرد کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے تو اس نے کہا کہ امیرالمومنین آپ اگر امان ہی طلب کرتے ہیں تو طاہر سے طلب کریں ، ہرثمہ کی امان میں نہ جائیں ، مگر امین نے کہا کہ میں طاہر سے امان طلب نہ کروں گا۔
چنانچہ ہرثمہ کے پاس پیام بھیجا گیا، اس نے بخوشی منظور کر لیا، مگر طاہر کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو اس کو بے حد ناگوار گزرا کہ آخری فتح یابی کا سہرا ہرثمہ کے سر پر بندھے گا، اس نے نہایت سخت پہرہ مقرر کر دیا کہ امین محل سرائے سے نکل نہ سکے، ہرثمہ نے یہ تجویز کی تھی کہ رات کے وقت امین نکل کر اس کشتی میں جو اس کی محل سرائے کے نیچے ہرثمہ لیے ہوئے موجود ہو گا سوار ہو جائے اور ہرثمہ کی پناہ میں آ جائے، طاہر کی طرف سے اس قسم کی تیاریاں دیکھ کر اس نے امین کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ آج کی رات اور صبر کریں کیونکہ آج صبح دریا کے کنارے مجھے کچھ ایسے علامات نظر آئے ہیں جن سے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ امین نے جواباً کہلا بھیجوایا کہ میرے جس قدر ہوا خواہ اور ہمدرد تھے وہ سب مجھ سے جدا ہو چکے ہیں اب ایک ساعت بھی یہاں قیام نہیں کر سکتا مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں طاہر کو اس کا علم نہ ہو جائے اور وہ مجھ کو گرفتار کر کے قتل نہ کر دے۔
|