Maktaba Wahhabi

129 - 868
آخر ۲۵ محرم ۱۹۸ھ کو وقت شب امین نے اپنے دونوں لڑکوں کو گلے لگایا، پیار کیا اور ان سے رخصت ہو کر روتا ہوا دریا کے کنارے آیا اور ہرثمہ کی جنگی کشتی پر سوار ہو گیا، ہرثمہ نے جو کشتی میں موجود تھا نہایت عزت و احترام سے کشتی میں سوار کرایا اور امین کے ہاتھ پر بوسہ دیا اور کشتی چلانے والوں کو روانگی کا حکم دیا، جوں ہی کشتی روانہ ہوئی سامنے سے طاہر کی جنگی کشتیوں کا بیڑہ سامنے آ گیا اور ہرثمہ کی کشتی کا محاصرہ کر کے لڑائی شروع کر دی، غوطہ زنوں نے کشتی میں سوراخ کر دیا اور حملہ آوروں نے ہر طرف سے تیر باری کی، آخر کشتی میں پانی بھر آیا اور وہ ڈوب گئی، ہرثمہ کے بال پکڑ کر ملاح نے نکالا اور ڈوبنے سے بچا لیا، امین پانی میں تیرنے لگا اس کو طاہر کے آدمیوں نے پکڑ لیا۔ احمد بن سالم تیر کر کنارے تک پہنچ گیا جب دریا سے باہر نکلا تو وہ بھی طاہر کے آدمیوں کے ہاتھ میں گرفتار ہوا، احمد بن سالم کا بیان ہے کہ مجھ کو گرفتار کر کے طاہر کے سامنے پیش کیا گیا اس نے مجھ کو قید خانہ میں بھجوا دیا، تھوڑی رات گذری ہو گی کہ طاہر کے سپاہیوں نے قید خانہ کا دروازہ کھولا اور امین کو اندر داخل کر کے پھر دروازہ بند کر دیا، اس وقت امین صرف ایک پاجامہ پہنے ہوئے تھا، سر پر عمامہ اور شانوں پر ایک بوسیدہ کپڑا تھا، میں انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر رونے لگا، امین نے مجھے پہچان کر کہا کہ تم مجھے اپنے گلے لگا لو، میری طبیعت سخت متوحش ہو رہی ہے۔ میں نے اس کو گلے لگایا، تھوڑی دیر کے بعد جب ذرا اس کے ہوش و حواس بجا ہوئے تو مجھ سے مامون کا حال دریافت کیا، میں نے کہا وہ زندہ و سلامت موجود ہے، امین نے کہا اس کا وکیل تو مجھ سے کہتا تھا کہ مامون مر گیا، غالباً اس سے اس کا مدعا یہ ہو گا کہ میں اس کی جنگ سے غافل ہو جاؤں ، میں نے کہا خدائے تعالیٰ آپ کے وزیروں سے سمجھے کہ انہوں نے آپ کو دھوکا دیا، پھر امین نے آہ سرد کھینچ کر کہا کہ کیوں بھائی کیا یہ لوگ وعدئہ امان کو ایفاء نہ کریں گے، میں نے کہا ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور پورا کریں گے، ہم دونوں یہی باتیں کر رہے تھے کہ محمد بن حمید آیا، دور سے کھڑا ہوا دیکھتا رہا اور امین کو پہچان کر واپس چلا گیا، اس کے بعد آدھی رات کے وقت چند عجمی ننگی تلواریں لیے ہوئے قید خانہ میں آئے، امین ان کو دیکھ کر آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگا، ان میں سے ایک نے لپک کر امین کو پکڑ کر زمین پر گرا دیا اور ذبح کرکے سر اتار لیا، سر لے کر چلے گئے، صبح ہوئی تو لاش کو بھی اٹھا کر لے گئے۔ طاہر نے امین کا سر منظر عام پر لٹکا دیا، جب لوگوں نے اچھی طرح دیکھ لیا تو اپنے چچا زاد بھائی محمد بن حسن بن زریق بن مصعب کے ہاتھ خاتم خلافت، عصا، چادر کے ہمراہ مامون کے پاس بھیج دیا اور شہر میں امن کی منادی کرا دی، جمعہ کے دن مسجد جامع میں مامون کے نام کا خطبہ پڑھا اور امین کی برائیاں
Flag Counter