منصور ہی کے زمانے سے تصنیف و تالیف کا کام شروع ہو چکا تھا۔ ہارون الرشید کے زمانہ میں یہودی اور عیسائی علماء کی بھی قدر دانی دربار بغداد میں ہوتی تھی۔ عیسائیوں کو ہارون نے فوجی سرداریاں بھی عطا کیں اور اپنی مصاحبت میں بھی جگہ دی۔ اس کے زمانے میں ہندوستان کے علماء بھی گورنر سندھ کی معرفت اور براہ راست خود بھی بغداد میں پہنچے اور وہاں ان کی قدر و منزلت بڑھائی گئی۔ عبرانی زبان کی کتابوں کے ترجمے ہوئے، مختلف علوم و فنون کی تدوین کا سلسلہ جاری ہوا۔ بغداد میں راحت و آسائش اور دولت و اطمینان لوگوں کو خوب حاصل تھا۔ اس لیے شاعری اور موسیقی کے چرچے بھی بغداد میں پائے جاتے تھے۔ قصہ گویوں نے ہارون الرشید کے متعلق بعض فرضی کہانیاں تصنیف کیں اور وہ کہانیاں دنیا میں مشہور ہو گئیں ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس خلیفہ کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پھیل گئیں ۔ ہارون الرشید بہادر اور سپاہی منش انسان تھا۔ وہ بڑی خوش دلی اور مسرت کے ساتھ گھوڑے کی زین پر مہینے اور برس صرف کر دیتا تھا، لیکن جب صوفیوں کی مجلس میں بیٹھتا تو ایک تارک الدنیا صوفی و درویش نظر آتا تھا۔ جب فقہاء کی مجلس میں ہوتا تھا تو وہ اعلیٰ درجہ کا فقیہ اور جب محدثین کی صحبت میں ہوتا تھا تو اعلیٰ درجہ کا محدث ثابت ہوتا تھا۔ صرف زندیقوں یعنی لا مذہبوں کا وہ ضرور دشمن تھا۔ باقی غیر مذہب والوں کے ساتھ اس کا برتاؤ مدارات و مروت کا تھا۔ حج، جہاد اور خیرات تین چیزوں کا اس کو بہت شوق تھا۔ وہ اعلیٰ درجہ کا رقیق القلب بھی تھا۔ جب کوئی شخص اس کو نصیحت کرتا اور دوزخ سے ڈراتا تو وہ زار و قطار رونے لگتا تھا۔
ایک روز ابن سماک ہارون کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ہارون کو پیاس لگی تو اس نے پانی طلب کیا۔ پانی آیا اور ہارون نے پینا چاہا تو ابن سماک نے کہا کہ امیرالمومنین ذرا ٹھہر جائیے، ہارون الرشید نے کہا: فرمائیے؟ ابن سماک نے کہا کہ اگر شدت پیاس میں پانی آپ کو نہ ملے، تو ایک پیالہ پانی آپ کتنے تک خرید لیں گے۔ ہارون الرشید نے کہا: نصف سلطنت دے کر مول لے لوں گا۔ ابن سماک نے کہا کہ اب آپ پی لیجئے۔ جب ہارون الرشید پانی پی چکا تو ابن سماک نے کہا کہ امیرالمومنین اگر یہ پانی آپ کے پیٹ میں رہ جائے اور نہ نکلے تو اس کے نکلوانے میں آپ کہاں تک خرچ کر سکتے ہیں ۔ ہارون الرشید نے کہا کہ ضرورت پڑے تو میں نصف سلطنت دے ڈالوں گا۔ ابن سماک نے کہا کہ بس آپ سمجھ لیجئے کہ آپ کا تمام ملک ایک پیالہ پانی اور پیشاب کی قیمت رکھتا ہے۔ آپ کو اس پر زیادہ غرور نہ ہونا چاہیے۔ ہارون الرشید یہ سن کر رو پڑا اور بہت دیر تک روتا رہا۔
ایک مرتبہ ہارون الرشید نے ایک بزرگ سے کہا کہ آپ مجھے نصیحت کیجئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر
|