آپ کا کوئی مصاحب ایسا ہو جو خوف دلاتا رہے اور اس کا نتیجہ بہتر ہو تو وہ اس مصاحب سے اچھا ہے جو آپ کو خوف سے آزاد کر دے مگر نتیجہ اس کا برا ہو۔ ہارون الرشید نے کہا: ذرا کھول کر بیان فرمائیے تاکہ اچھی طرح سمجھ میں آ جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص آپ سے یہ کہے کہ قیامت کے دن رعیت کے متعلق سوال ہونے والا ہے آپ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیے تو وہ اس شخص سے بہتر ہے جو یہ کہے کہ آپ اہل بیت نبوی سے ہیں اور بوجہ قرابت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے تمام گناہ معاف ہوچکے ہیں ۔ ’’یہ سن کر ہارون الرشید ایسا رویا کہ پاس بیٹھنے والوں کو اس پر رحم آنے لگا۔‘‘
قاضی فاضل کہتے ہیں کہ دو بادشاہوں کے سوا کوئی ایسا نہیں ہوا جس نے طلب علم میں سفر کیا ہو۔ ایک تو ہارون الرشید کہ اس نے اپنے بیٹوں امین و مامون کو ہمراہ لے کر مؤطا امام مالک کی سماعت کے لیے سفر کیا۔ چنانچہ جس نسخہ میں اس نے پڑھا تھا وہ شاہان مصر کے پاس موجود تھا۔ دوسرا سلطان صلاح الدین ایوبی جو مؤطا امام مالک کے سننے کی غرض سے اسکندریہ گیا تھا۔
ہارون الرشید چوگان کھیلتا اور تیر و کمان سے نشانہ بازی کرتا تھا۔ ہارون الرشید کی عمر وفات کے وقت ۴۵ سال کے قریب تھی۔ اس کے علاج میں حکیم جبرئیل بن بختیشوع سے غلطی ہوئی، اس لیے مرض ترقی کر کے اس کی وفات کا باعث ہوا۔ یہ حکیم ہارون الرشید کے ہمراہیوں میں اس کے بیٹے امین کا طرف دار تھا اور اس کا حاجب مسرور مامون کا ہوا خواہ تھا، جب کہ ہارون الرشید سفر ہی میں تھا اور اس کی علالت ترقی کر رہی تھی تو بغداد سے اس کے بیٹے امین نے بکر بن المعتمر کی معرفت بعض خطوط ہارون الرشید کے ہمراہیوں کے نام لکھ کر بھیجے تھے جن میں ہارون الرشید کی فوت شدہ تصور کر کے اپنی بیعت کے لیے لکھا تھا۔ ایک خط امین نے اپنے بھائی صالح کے نام لکھا تھا کہ لشکر و اسباب اور خزانہ لے کر فضل بن ربیع کے مشورے سے فوراً میرے پاس چلے آؤ۔ اسی مضمون کے خطوط اس نے ہارون الرشید کے دوسرے ہمراہیوں کو بھی لکھے تھے۔ اسی مضمون کا ایک خط فضل بن ربیع کے نام تھا۔ انہی خطوط میں اس نے تمام سرداروں کو ان کے عہدوں پر قائم رکھنے کے لیے بھی وعدہ کیا تھا۔
بکر بن المعتمر کے آنے کی اطلاع ہارون کو اتفاقاً ہو گئی۔ اس نے بکر کو اپنے سامنے بلایا اور آنے کا سبب دریافت کیا۔ اس نے کوئی معقول جواب نہ دیا تو ہارون نے اس کو قید کر دیا۔ اس واقعہ کے بعد ہی ہارون الرشید کا انتقال ہو گیا۔ فضل بن ربیع نے بکر کو جیل خانے سے نکلوایا۔ اس نے امین کے وہ خطوط دیے، ان خطوط کو پڑھ کر سرداروں نے آپس میں مشورہ کیا۔ چونکہ سب اپنے وطن بغداد کی طرف جانے کے آرزو مند تھے، فضل بن ربیع سب کو لے کر بغداد کی طرف روانہ ہو گیا اور ہارون نے جو وصیت کی تھی
|