Maktaba Wahhabi

111 - 868
چلا گیا۔ اس وقت اس کے ساتھ فضل بن ربیع، اسماعیل بن صبیح، مسرور حاجب، حسین اور جبریل بن بختیشوع وغیرہ موجود تھے۔ طوس پہنچ کر علالت نے یہاں تک ترقی کی کہ ہارون الرشید صاحب فراموش ہو گیا۔ ہرثمہ بن اعین اور رافع بن لیث کے مقابلہ کا حال اوپر پڑھ چکے ہو۔ ہرثمہ نے ابھی تک رافع کو مغلوب نہیں کیا تھا۔ لیکن بخارا فتح ہو کر رافع کا بھائی بشیر بن لیث گرفتار ہو چکا تھا۔ ہرثمہ نے بشیر کو خلیفہ کی خدمت میں روانہ کیا۔ جب ہارون الرشید طوس میں بستر علالت پر پڑا تھا اس وقت بشیر اس کے پاس پہنچ کر حاضر کیا گیا۔ ہارون نے اس کے قتل کرنے کا حکم دیا اور اس کو بڑی بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا۔ بشیر کے قتل کرنے کا حکم دے کر ہارون بے ہوش ہو گیا۔ جب اس کو ہوش آیا تو جس مکان میں ٹھہرا ہوا تھا اسی مکان کے ایک گوشہ میں قبر کھودنے کا حکم دیا۔ جب قبر کھد گئی تو چند حافظوں نے قبر میں اتر کر ختم قرآن کیا۔ ہارون نے اپنی چارپائی قبر کے کنارے بچھوا لی اور چار پائی پر پڑے پڑے قبر کو دیکھتا رہا۔ اسی حالت میں ۳ جمادی الثانی ۱۹۳ھ مطابق ۲۴ مارچ ۸۰۸ء بوقت شب انتقال کیا۔ اس کے بیٹے صالح نے جنازہ کی نماز پڑھائی۔ ۲۳ سال ڈھائی مہینے ہارون الرشید نے خلافت کی۔ طوس میں اس کی قبر موجود ہے۔ ہارون الرشید کا نکاح زبیدہ بنت جعفر بن منصور سے ہوا تھا۔ زبیدہ کی کنیت ام جعفر تھی۔ محمد امین اسی کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ علی، عبداللہ، مامون، قاسم، موتمن، محمد معتصم، صالح، محمد ابوموسیٰ، محمد ابویعقوب، ابوالعباس، ابوسلیمان، ابو علی اور ابو احمد یہ سب بیٹے امہات اولاد … سے پیدا ہوئے تھے۔ ہارون الرشید کے ان لڑکوں میں امین، مامون، موتمن، معتصم چار زیادہ مشہور ہیں ۔ معتصم پڑھا لکھا نہ تھا۔ اسی لیے ولی عہدی کے قابل اس کو ہارون نہیں سمجھا مگر وہ خلیفہ ہوا اور اسی کی اولاد سے بہت سے خلیفہ عباسی ہوئے اور اسی سے ہارون الرشید کی نسل چلی۔ ہارون الرشید نے مرتے وقت جس طرح بہت سے بیٹے چھوٹے اسی طرح بیٹیاں بھی بہت سی تھیں جو سب کنیزوں کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھیں ۔ ہارون الرشید کے خاندان عباسیہ میں آفتاب خاندان سمجھنا چاہیے۔ اس کے زمانے میں خلافت عباسیہ نہایت مضبوط ہو کر اپنی معراج کمال کو پہنچ گئی تھی۔ ہارون الرشید کے عہد خلافت میں آل ابی طالب اور دوسرے سازشی گروہوں کی ہمتیں پست ہو چکی تھیں ۔ اس کو علم و فضل کا بے حد شوق اور پابندی مذہب کا بہت خیال تھا۔ زندیقوں کے فتنہ کا اس کے عہد میں مکمل استیصال ہو چکا تھا۔ روم و یونان کی عظیم الشان عیسائی سلطنتیں اس کی خراج گزار تھیں ۔ ہارون الرشید نے مرتے وقت خزانے میں نوے کروڑ دینار چھوڑے تھے۔ اندلس و مراکش کے علاوہ وہ تمام عالم اسلام کا فرما نروا تھا۔
Flag Counter