Maktaba Wahhabi

92 - 868
اور سفاح کی وفات تک خالد بن برمک وزیر رہا۔ سفاح کے بعد منصور عباسی تخت نشین ہوا تو اس نے بھی خالد کو وزارت پر قائم رکھا۔ منصور نے اپنی خلافت کے پہلے ہی سال ابو مسلم کو جو خالد کا مربی و ہم خیال و محسن تھا قتل کرا دیا۔ خالد نے ابو مسلم کے قتل ہونے پر اپنے کسی عمل سے اپنی دلی ناراضی اور ملال کا اظہار نہ ہونے دیا۔ مگر منصور نے پھر بھی احتیاطاً قتل ابو مسلم سے چار پانچ مہینے کے بعد خالد کو کسی بغاوت کے فرو کرنے کے بہانے سے روانہ کر کے ابو ایوب کو اپنا وزیر بنایا۔ چونکہ خالد سے کوئی علامت سرکشی اور بے وفائی ظاہر نہیں ہوئی تھی اس لیے خلیفہ منصور نے ایک کار گزار اور قابل شخص سے کام لینے اور فائدہ اٹھانے میں کمی نہیں کی۔ خالد کے آئندہ طرز عمل نے منصور کو مطمئن کر دیا، چونکہ وہ ابو مسلم جیسے سازشی، باہمت اور ابوالعزم شخص کا شاگرد رشید اور سیاسی معاملات میں خوب تجربہ کار تھا۔ ایرانی عصبیت بھی اس کے دل میں موجود تھی، ابو مسلم کا انجام بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا اور اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا، لہٰذا وہ ابو مسلم سے بھی زیادہ گہرا بن گیا اور منصور جیسے چوکس رہنے والے اور ادا شناس خلیفہ سے بھی اپنے اصلی رنگ کو چھپا لینے میں کامیاب ہو گیا۔ موصل کی ولایت کا والی اور منصور کے بیٹے مہدی کا اتالیق رہا، اور اپنے وقار و مرتبہ کو آخر عمر تک قائم رکھا۔ خلیفہ مہدی کا اتالیق ہونا اس کے اور اس کے خاندان کے لیے بے حد مفید اور ضروری تھا۔ کچھ بعید نہیں کہ اس نے خود اس بات کی کوشش کی ہو کہ مہدی کی اتالیقی اس کو مل جائے۔ مہدی کی تخت نشینی اور منصور کی وفات کے بعد بھی خالد زندہ تھا۔ اب اس کے عزت و مرتبہ میں اور بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ مہدی کے عہد خلافت یعنی ۱۶۳ھ میں قریباً ۷۷ سال کی عمر میں خالد کا انتقال ہوا۔ اس کی آخری آدھی عمر سلطنتوں کے بننے اور بگڑنے کا تماشا دیکھنے میں صرف ہوئی تھی اور وہ خود سلطنتوں کو برباد کرنے اور نئی سلطنت قائم کرنے کے کام میں شریک غالب کی حیثیت سے کام کر چکا تھا۔ اس کی وفات کے وقت اس کے بیٹے یحییٰ کی عمر ۴۵ یا ۵۰ سال کی تھی، اور اس نے بھی ہوش سنبھالتے ہی یہ تمام تماشے اور ہنگامے دیکھے تھے۔ وہ اپنے باپ سے اس کے تمام عزائم، تمام خیالات، تمام خواہشات، تمام احتیاطیں ورثے میں پا چکا تھا۔ وہ اپنے باپ دادا کی بربادی، اپنے خاندانی احترام، ایرانی شہنشاہی کے افسانے نہایت عقیدت و حسرت کے ساتھ سن چکا تھا۔ وہ اپنے آپ کو ایرانی قوم کا نمائندہ اور پیشوا سمجھتا اور اس بات کو بخوبی جانتا تھا کہ ایک ذرا سی لغزش پا اس رسوخ کو جو خلافت اسلامیہ میں حاصل ہے ضائع کر کے تحت الثریٰ میں پہنچا سکتی ہے۔ دوسری طرف اس کو اور اس کے باپ کو خاندان خلافت کے اندرونی اور
Flag Counter