بلخ کو چینیوں نے زردشت ہی کے زمانے میں حملہ کر کے ویران کر دیا تھا، لیکن بلخ چند ہی روز کے بعد پھر آباد اور آتش پرستوں کا قبلہ تھا۔ سکندری سیلاب نے بلخ کی گرم بازاری کو سرد کر دیا تھا، لیکن راسخ العقیدت زردشتیوں کا وہ بہ دستور امید گاہ تھا۔ ساسانیوں کے عہد میں اس کی عظمت نے دوبارہ عہد شباب پایا۔ جب قادسیہ نہاوند کے میدانوں میں ساسانی سلطنت کے سانس پورے ہو گئے تو بلخ کے آتش کدے کی رونق اور بھی زیادہ بڑھ گئی۔ کیونکہ ایران کا شکست خوردہ شہنشاہ اور دربار ایران کے بقیہ مفرور سرداروں کا جمگھٹ بلخ ہی کی طرف متوجہ ہو کر بلخ کے آتش کدہ موسومہ نوبہار میں مصروف یزداں پرستی ہوا۔ اس زمانہ میں نو بہار کے مغ اعظم کی شان و عظمت قابل دید ہو گی اور وہ دین آتش پرستی کے سرپرست اعظم شہنشاہ ایران کی بربادی و بے کسی دیکھ دیکھ کر سب سے زیادہ متاثر ہوا ہو گا، وہ سوچتا ہو گا کہ جس دین کے پیشواؤں میں میرا شمار ہے وہ دین ہی اب ذلیل و برباد ہونے والا ہے اور اس کے ساتھ ہی میری اور میرے خاندان کی عظمت بھی رخصت ہوا چاہتی ہے۔
آتش کدے کے امام یا متولی کو مغ کہتے تھے۔ ان مغوں میں جو سب سے بڑا اور سب کا افسر اور اپنے صوبہ کے تمام آتش کدوں کا مہتمم اور مرکزی آتش کدہ کا مغ ہوتا تھا، وہ برمغ کہلاتا تھا۔ ایران کے چار مرکزی آتش کدوں میں سے ایک آتش کدہ نوبہار تھا۔ اس آتش کدہ کو سب سے شہرت و عظمت حاصل تھی۔ کیونکہ بلخ لہرا سپ کا مقتل، اور زردشت کی قیام گاہ، اور دین زردشتی کا مرکز سمجھا جاتا تھا، اس لیے نوبہار کے برمغ کی عزت و عظمت آتش پرستوں اور ایرانیوں میں یقینا بہت بلند ہو گی۔
۳۱ھ میں مسلمان فتح مندوں کا سیلاب مرو کی طرف سے بڑھتا، میدانوں کو سمیٹتا اور پہاڑوں کو لپیٹتا ہوا بلخ تک پہنچا اور وہ آگ جس کی نسبت مشہور تھا کہ ہزاروں برس سے برابر روشن چلی آتی ہے، افسردہ ہو گئی۔ نہ آتش پرست رہے نہ آتش کدہ کی ضرورت رہی۔ نہ برمغ صاحب کی عزت و توقیر کرنے والا کوئی گروہ تھا نہ ان کی آمدنی و آسائش کے سامان رہے۔ مگر وہ اپنے اسی خطاب یعنی برمغ کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ فتح مند اہل عرب اس نام کو برمک کہنے لگے۔
اس موقع پر یہ خیال کرنا غلطی ہو گی کہ اہل عرب نے نوبہار کو مسمار و منہدم کر کے آتش پرستوں کو عبادت سے روک دیا اور زبردستی مسلمان بنا لیا تھا۔ مسلمان اگر زبردستی آتش پرستوں کو مسلمان بناتے تو سب سے پہلے برمک کو مسلمان بناتے۔ لیکن انہوں نے برمک سے قطعاً کوئی تعرض نہیں کیا بلکہ آتش پرست خود ہی اسلام میں داخل ہوتے اور اپنے مذہب کو چھوڑتے جاتے تھے، اور اسی تبدیلی مذہب کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کو حیرت انگیز سرعت کے ساتھ فتوحات حاصل ہوئیں ۔ مسلمانوں کا بلخ تک پہنچنا گویا
|