Maktaba Wahhabi

867 - 868
اسمٰعیل صفوی کو عثمانی سپاہی گرفتار ہی کر چکے تھے کہ اسمٰعیل صفوی کے ایک ہمراہی مرزا سلطان علی نے کہا کہ میں شاہ اسمٰعیل صفوی ہوں ۔ عثمانی سپاہی اس کی طرف متوجہ ہو گئے اور اسمٰعیل صفوی کو بھاگ کر جان بچانے کا موقع مل گیا، تمام میدان ایرانیوں سے خالی ہو گیا اور سلطان سلیم کو فتح مبین حاصل ہوئی۔ سلطان سلیم نے آگے بڑھ کر اسمٰعیل صفوی کے لشکر گاہ پر قبضہ کیا تو معلوم ہوا کہ اسمٰعیل صفوی اس سرا سیمگی کے ساتھ فرار ہوا ہے کہ اپنا سفری خزانہ اور اپنی پیاری بیوی بھی اپنے خیمہ ہی میں چھوڑ گیا ہے سلطان سلیم نے عورتوں اور بچوں کو قید و حراست میں رکھ کر جنگی قیدیوں کو قتل کر دیا اور میدان جنگ معائنہ کرنے سے معلوم ہوا کہ اس لڑائی میں چودہ عثمانی اور چودہ ایرانی صاحب علم سپہ سالار مارے گئے، سلیم کو اپنے ان سرداروں کے مارے جانے کا سخت ملال ہوا اور اس نے بڑی عزت کے ساتھ ان کی تجہیز و تکفین سے فراغت پا کر تبریز کا ارادہ کیا، یہ لڑائی مقام خالدران میں ۲۳ اگست ۱۵۱۴ء مطابق ۲۰ ماہ رجب ۹۲۰ھ کو ہوئی، اس لڑائی سے تیرہ دن کے بعد سلطان سلیم تبریز دارالسلطنت ایران میں داخل ہوا، اسمٰعیل صفوی خالدران سے بھاگ کر تبریز میں پہنچا تھا۔ لیکن جب اس کو یہ معلوم ہوا کہ سلطان سلیم تبریز کی طرف آ رہا ہے تو وہ تبریز سے خراسان کی طرف بھاگ گیا اور اپنی سلطنت کے مشرقی حصہ پر اپنا قبضہ قائم رکھا، سلیم نے تبریز میں آٹھ روز قیام کیا، اس کے بعد قرہ باغ کی طرف بڑھا، جب سلطان تبریز میں مقیم تھا تو اس کے پاس مسندا بدیع الزماں جو تیموری نسل کا شہزادہ تھا ملنے آیا، سلطان نے اس کی بہت عزت و تکریم کی، سلطان سلیم کا ارادہ تھا کہ قرہ باغ سے آگے بڑھ کر آذربائیجان ہی کے میدانوں میں موسم سرما بسر کرے اور موسم بہار کے شروع ہونے پر مشرقی ممالک کی فتوحات کے لیے بڑھے لیکن اس کی فوج نے اب پھر سرکشی پر آمادگی ظاہر کی اور سلطان کو مجبور کیا کہ وطن کی طرف واپس ہو، یہ واپسی سلطان سلیم کے لیے ایسی ہی تھی، جیسی کہ سکندر کی واپسی دریائے ستلج کے کنارے سے مجبوراً ہوئی تھی، سکندر کو بھی اس کی فوج ہی نے واپس ہونے پر مجبور کر دیا تھا، سلطان سلیم قرہ باغ سے واپس تو ہوا مگر وہ سیدھا قسطنطنیہ نہیں چلا گیا، بلکہ اس نے واپس ہو کر ایشیائے کوچک کے شہر اماسیہ میں مقام کیا اور یہیں موسم سرما بسر کر کے موسم بہار کے شروع ہونے پر پھر فوج کشی کر کے آرمینیا و جارجیہ اور کوہ قاف کا علاقہ فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کیا، آذر بائیجان کا صوبہ پہلے سے اس کے قبضہ میں آ چکا تھا، اب اس کے بعد سلطان کا ارادہ تھا کہ کردستان اور عراق یعنی دوآبہ دجلہ و فرات کو بھی فتح کر کے اپنی حکومت میں شامل کرے، جس پر اب تک اسمٰعیل صفوی کا اقتدار باقی تھا، لیکن سلطان کے پاس قسطنطنیہ سے خبر پہنچی کہ وہاں کی فوج سرکشی پر آمادہ ہے اور قسطنطنیہ کے وائسرائے کے ساتھ گستاخی سے پیش آئی ہے اس لیے اس کو مجبوراً اپنے
Flag Counter