Maktaba Wahhabi

838 - 868
ثانی نے اپنے سپہ سالار احمد قیدوق کی قابلیت و تجربہ کاری سے فائدہ اٹھایا اور اپنے بھائی جمشید کے مقابلہ پر مستعد ہو گیا۔ چنانچہ ۸۸۶ھ مطابق ۲۰ جون ۱۴۸۱ء دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا جمشید کی فوج کے اکثر سردار مع اپنی اپنی جمعیتوں کے عین معرکہ جنگ میں سلطان بایزید ثانی کی طرف چلے آئے اور اس طرح جمشید کو سلطان بایزید ثانی کی فوج سے شکست کھانی پڑی۔ ادھر یہ دونوں بھائی ایشیائے کوچک میں مصروف جنگ تھے ادھر روما کا پوپ جو روما سے بھاگنے کی تیاریاں کر چکا تھا سلطان فاتح کی خبر وفات سن کر روما میں ٹھہرا رہا اور یورپ کے عیسائی ملکوں سے صلیبی مجاہدین کو دعوت دی کہ آکر اٹلی کو بچاؤ اور اس فرصت کو غنیمت سمجھ کر اٹرانٹو سے ترکوں کو نکال دو، چنانچہ ہسپانیہ اور فرانس و آسڑیا تک کے عیسائی دوڑ پڑے اور عیسائی فوجوں نے اٹرانٹو پر چڑھائی کر کے اس کا محاصرہ کر لیا، ایشیائے کوچک میں جب سلطان بایزید ثانی و جمشید کی فوجیں ایک دوسرے کے مد مقابل پہنچ چکی تھیں تو اسی زمانہ میں اٹرانٹو پر حملہ آوری کی تیاریاں عیسائیوں نے کر لی تھیں ، قسطنطنیہ سے کوئی مدد اٹرانٹو کی فوج کو نہ مل سکی ترکوں نے خوب جم کر عیسائی فوجوں کا مقابلہ کیا۔ لیکن جب ان کو قسطنطنیہ کی طرف سے مایوسی ہو گئی تو انہوں نے عیسائیوں کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم مدافعت کی پوری طاقت رکھتے ہیں اور ہم کو مغلوب کرنا تمہارے لیے آسان کام نہیں ہے مگر ہم اب دیر تک لڑنا اور خون بہانا مناسب نہیں سمجھتے اگر تم صلح کے ساتھ اس شہر کو لینا چاہتے ہو تو ہم تمہارے سپرد کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ ہم کو یہاں سے عزت و اطمینان کے ساتھ قسطنطنیہ کی طرف چلے جانے کی اجازت دو، عیسائیوں نے فوراً اس پیغام کو منظور کر کے شرائط صلح کی دستاویز لکھ کر ترکی سردار کے پاس بھیج دی جس کی رو سے عثمانیہ لشکر کے ہر فرد کی جان و مال کو امن دی گئی تھی۔ اس طرح صلح نامہ کی تکمیل کے بعد ترکوں نے شہر کا دوازہ کھول دیا اور عیسائیوں کا شہر پر قبضہ کرا کر خود وہاں سے روانہ ہونے کی تیاری کرنے لگے، لیکن عیسائی سرداروں نے بد عہدی کر کے تمام اسلامی فوج کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ شہر کی گلیاں میدان جنگ بن گئیں اور عیسائیوں نے ہر طرف سے گھیر کر نہایت ہی طالمانہ اور غیر شریفانہ طور پر قریباً تمام ترکوں کو قتل کر ڈالا اور اٹرانٹو کی گلیاں ترکوں کے خون سے لالہ زار بن گئیں ۔ سلطان بایزید ثانی کی تخت نشینی کے بعد ہی سلطنت عثمانیہ کو یہ نہایت سخت و شدید نقصان پہنچا کہ جو میخ ملک اٹلی میں گڑ گئی تھی وہ اکھڑ گئی اور ملک اٹلی کی فتح کا دروازہ جو ترکوں نے کھول لیا تھا وہ پھر بند ہو گیا اور روما کے گرجے پر جو حسرت و مایوسی کے بادل چھا گئے تھے وہ یک لخت دور ہو گئے اور اندلس کے ضعیف مسلمانوں کو جو زبردست امداد پہنچنے والی تھی اس کا امکان جاتا رہا احمد قیدوق کو پھر اتنی فرصت ہی نہ
Flag Counter