قسطنطنیہ پہنچ گیا۔ یہاں آتے ہی تخت سلطنت پر جلوس کیا مگر جاں نثاری فوج نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور اس کے سرداروں نے سلطان سے عرض کیا کہ ہماری تنخواہوں اور جاگیروں میں بیش قرار اضافہ کیجئے اور خوب انعام و اکرام دلوائیے ورنہ ہم ابھی آپ کو قتل کر دیں گے، بایزید فوج کے اس خود سرانہ رویہ سے مرعوب ہو گیا اور اس نے جاں نثاری فوج کے مطالبات کو منظور کر کے آئندہ کے لیے اس رسم کی بنیاد رکھ دی کہ جب کوئی نیا سلطان تخت نشین ہو تو فوج کو انعام و اکرام دے کر خزانہ شاہی کا ایک بڑا حصہ اس طرح ضائع کر دے، بایزید کی اس پہلی کمزوری نے بتا دیا تھا کہ وہ کوئی زبردست اور قوی بازو سلطان اور اپنے باپ کا نمونہ نہ ہو سکے گا، لیکن ایک طرف اس کا اپنے بھائی جمشید سے عمر میں بڑا ہونا، دوسرے وزیر اسحاق پاشا اور جاں نثاری فوج کا طرف دار ہونا باعث اس کا ہوا کہ اراکین سلطنت کو باوجود اس احساس کے کہ وہ قوی دل سلطان نہیں ہے اس کی مخالفت کی جرائت نہ ہو سکی چند ہی روز کے بعد سپہ سالار احمد قیدوق بھی اٹلی سے قسطنطنیہ پہنچ گیا چونکہ اس کا رقیب وزیراعظم محمد پاشا بایزید کا مخالف اور جمشید کا طرف دار تھا، لہٰذا احمد قیدوق نے بھی بلاپس و پیش آتے ہی سلطان بایزید ثانی کی بیعت کر لی۔
جمشید کو باپ کے مرنے کی خبر کسی قدر دیر سے پہنچی اس وقت بایزید ثانی قسطنطنیہ میں آکر تخت نشین ہو چکا تھا۔ جمشید نے ایشیائے کوچک میں شہروں پر قبضہ کرنا شروع کیا اور شہر بروصہ پر قابض ہو کر اپنے بھائی سلطان بایزید ثانی کو لکھا کہ سلطان فاتح نے آپ کو اپنا ولی عہد نہیں بنایا تھا۔ اس لیے آپ کا تنہا کوئی حق نہیں ہے کہ تمام سلطنت کے مالک و فرماں روا بن جائیں ۔ مناسب یہ ہے کہ ایشیائی مقبوضات میرے تحت حکومت میں رہیں اور یورپی ملکوں پر آپ حکمرانی کریں ۔ سلطان بایزید ثانی نے اس درخواست کو رد کر دیا اور جواباً کہا کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں ۔ قسطنطنیہ میں سلطان فاتح کی بہن اور ان دونوں بھائیوں کی پھوپھی موجود تھی۔ اس نے بھتیجے سلطان بایزید ثانی کے پاس جا کر اس کو سمجھایا کہ دونوں بھائیوں کا لڑنا اچھا نہیں ہے اور مناسب یہی ہے کہ جمشید کو ایشیائے کوچک کا تمام علاقہ دے دیا جائے، مگر سلطان بایزید ثانی نے پھوپھی کی نصیحت پر کوئی التفات نہ کیا اور یہی جواب دیا کہ میں زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتا ہوں کے جمشید مع اہل و عیال بیت المقدس میں جا کر سکونت اختیار کرے اور میں اس کے پاس صوبہ کریمیا کی آمدنی کا ایک حصہ اس کے گزارہ کے لیے بھجواتا رہوں گا، بہرحال مصالحت کی کوئی شکل پیدا نہ سکی، جمشید اس بات سے واقف تھا کہ اگر میں تخت سلطنت کو حاصل نہ کر سکا تو سلطان بایزید ثانی مجھ کو ہرگز زندہ نہ چھوڑے گا لہٰذا وہ اپنی جان کی حفاظت کے لیے بھی مجبور ہو گیا کہ سلطان بایزید ثانی کا مقابلہ کرے اور تخت سلطنت کے حصول کی کوشش میں کوتاہی نہ کرے۔ غرض سلطان بایزید
|