وقت جب کہ سلطانی فوج شہر میں داخل ہو کر لوٹ مار میں مصروف ہونا چاہتی تھی، سپہ سالار نے حکم جاری کیا کہ کوئی شخص رتی برابر چیز پر تصرف کرنے کا حق دار نہیں ہے، اس سے فوج میں بد دلی پیدا ہوئی اور لوگوں نے خدمات کو انجام دینے میں پہلو تہی اختیار کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فوج اور اس کے سپہ سالار کی ناچاقی نے وہ صورت اختیار کی کہ جزیرہ کو چھوڑ کر واپس آنا پڑا اور روڈس سلطانی مقبوضات میں شامل ہوتے ہوتے بچ گیا۔
جب روڈس کی جانب مہم روانہ کی گئی تھی، تو اس کے ساتھ ہی سلطان نے اپنے وزیر اعظم احمد قیدوق فاتح کریمیا کو ایک جہاز دے کر جہازوں کے ذریعہ اٹلی کے جنوب کی جانب روانہ کیا کہ وہ ملک اٹلی میں داخل ہو کر وہاں فتوحات شروع کرے، چنانچہ احمد قیدوق نے ساحل اٹلی پر اتر کر متعدد مقامات کو فتح کر کے اٹلی کے شہر آرٹینٹو کا محاصرہ کر لیا، جو اٹلی کا باب الفتح کہلاتا تھا، یعنی اس شہر کے فتح ہونے کے بعد ملک اٹلی اور شہر روما کا فتح کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا،
آخر ۸۸۵ھ مطابق ۱۴۸۰ء بتاریخ ۱۱ اگست احمد قیدوق نے اس شہر کو بزور شمشیر فتح کر لیا اور بیس ہزار کے قریب محصورین کو گرفتار و قتل کیا، اس مستحکم مقام کے قبضے میں آ جانے کے بعد شہر روما کا فتح کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ تمام ملک اٹلی میں گھبراہٹ اور سراسیمگی طاری ہو گئی۔ یہاں تک کہ روم کا پوپ اپنا بوریا بستر باندھ کر ملک اٹلی سے بھاگ جانے پر آمادہ ہو گیا، شہر آرٹینٹویا اور ٹرانٹو کی فتح اور روڈس کی مہم کے ناکام ہونے کا حال سلطان فاتح کو معلوم ہوا تو اس نے فوراً فوجوں کے فراہم کرنے اور سامان جنگ کی تیاری کا اہتمام کیا، بظاہر سلطان بایزید یلدرم کی اس خواہش کے پورا ہونے میں کوئی امراب مانع نہ رہا تھا کہ عثمانی سلطان فاتحانہ شہر روما میں داخل ہو کر اپنے گھوڑے کو روما کے بڑے گرجا میں دانہ کھلائے، اس مرتبہ سلطان فاتح نے بڑی سرگرمی کے ساتھ فوجی تیاری کی اور آبنائے باسفورس پر سمندر کے کنارے فوجی علم نصب کرا دیئے، جو اس بات کی علامت تھی کہ سلطان اپنی جرار فوج کے ساتھ بہت جلد روانہ ہونے والا ہے۔
اس وقت سلطان کے سامنے تین مہمیں موجود تھیں ، ایک ایران کے باشادہ حسن طویل کو سزا دینا، کیونکہ اس نے شہزادہ بایزید کے مقابلہ میں چھیڑ چھاڑ اور لڑائی شروع کر دی تھی، دوسرے جزیرہ روڈس کو فتح کرنا، تیسرے ملک اٹلی کو تمام و کمال فتح کر کے شہر روما میں فاتحانہ داخل ہونا، سلطان نے کسی دوسرے شخص کو یہ نہیں بتایا کہ وہ اول کس طرف متوجہ ہو گا سلطان فاتح کی یہ عادت تھی کہ وہ جب کسی مہم پر خود روانہ ہوتا تھا تو فوج کے کسی افسر حتیٰ کہ اس کے وزیر اعظم تک کو بھی یہ معلوم نہ ہوتا تھا، کہ سلطان کا ارادہ
|