Maktaba Wahhabi

830 - 868
رہے۔ یافہ کا بندرگاہ دوسرا قسطنطنیہ سمجھا جاتا تھا، اس کا قبضہ میں آ جانا سلطنت عثمانیہ کے مشرقی صوبوں اور بحر اسود میں اپنی سیادت قائم رکھنے کے لیے نہایت مفید اور ضروری تھا، اس موقع پر شاید یہ بیان کر دینا دل چسپی سے خالی نہ ہو گا، کہ اسی سال یعنی ۸۷۹ھ میں روس کے اندر زار کا وہ خاندان برسر حکومت ہوا، جس نے ہمارے زمانہ کی مشہور جنگ عظیم تک روس میں زور و شور کے ساتھ حکومت کی اور آخری زار دوران جنگ میں معزول ہو کر مقتول ہوا اور اس کے بعد روس میں سوویت حکومت یعنی جمہوری سلطنت قائم ہوئی، کریمیا اور یافہ کا حکومت عثمانیہ میں شامل ہو جانا ایران کے بادشاہ حسن طویل کو بہت ہی ناگوار گزرا اور اب اس نے علانیہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں ۔ ۸۸۰ھ میں سلطان فاتح نے اپنے بیٹے بایزید کو ایشیائے کوچک کی فوجوں کا سپہ سالار بنا کر بھیج دیا کہ اس طرف کے معاملات کا نگران رہے اور خود یورپی علاقے کی طرف مصروف رہا، البانیا اور ہربزیگوینا پر سلطان کا قبضہ پہلے ہی ہو چکا تھا، اب سلطان نے جنیوا اور وینس کے قبضے سے بحر روم کے جزیروں کو یکے بعد دیگرے فتح کرنا شروع کیا اس کے بعد ۸۸۲ھ میں سلطان فاتح کا سپہ سالار عمر پاشا اپنی فتح مند فوج لیے ہوئے وینس کے دارالسلطنت تک پہنچ گیا اور وہاں کی پارلیمنٹ نے ترکی فوجوں کو اپنے شہر کی دیواروں کے نیچے دیکھ کر نہایت الحاح و عاجزی کے ساتھ صلح کی درخواست کی اور وعدہ کیا کہ سلطان کو جب ضرورت ہو گی تو ہم سو جہازوں کے بیڑے سے سلطانی فوج کی مدد کریں گے، چنانچہ عمر پاشا اپنے حسب منشاء شرائط پر صلح کر کے سالماً غانماً وینس سے واپس آیا۔ ۷۱۱ھ سے جزیرہ روڈس میں صلیبی مجاہدین کے ایک گروہ نے قبضہ کر کے ایک خود مختار حکومت قائم کر لی تھی، قریباً ڈیڑھ سو سال سے یہ لوگ اس جزیرہ پر قابض و متصرف اور ارد گرد کے جزیروں اور شام و ایشیائے کوچک کے بندرگاہوں پر بحری ڈاکے ڈالتے رہا کرتے تھے، وینس و جینوا والوں نے بھی ان کو کبھی نہیں چھیڑا تھا، بلکہ ان کو صلیبی مجاہدین کی یادگار سمجھ کر ان سے اتحاد رکھتے، ان کی ڈاکہ زنیوں کو جو عموماً مسلمانوں کے لیے باعث تکلیف ہوتی تھیں ، بہ نظر استحسان دیکھتے تھے اب جب کہ ساحل شام سے لے کر بحیرہ ایڈریا ٹک تک سلطان کی حکومت و سیادت قائم ہو چکی تھی اور تقریباً تمام جزیرے سلطان کے قبضے میں آ چکے تھے تو روڈس کی عیسائی حکومت کا وجود سخت تکلیف دہ ثابت ہوا۔ چنانچہ ۸۸۵ھ میں سلطان نے اس جزیرہ کے فتح کرنے کے لیے ایک بحری جنگی مہم روانہ کی مگر یہ مہم ناکام واپس آئی۔ اس کے بعد سلطان فاتح نے دوسری مہم روانہ کی، جس کا سپہ سالار ایک تجربہ کار شخص تھا جزیرہ کے تمام مقامات پر قبضہ کرنے کے بعد اس کے دارالسلطنت کا محاصرہ کیا گیا، شہر فتح ہو چکا تھا، مگر عین اس
Flag Counter