(اندلس) کے شمالی صوبوں اراگون و قسطلہ سے عیسائی مجاہدین کی زبردست اور کار آزمودہ فوجیں قسطنطنیہ پہنچیں ۔ اسی طرح پوپ نے خود ایک زبردست فوج اپنے ایک نائب کارڈ نیل کی ماتحتی میں جہازوں پر روانہ کی۔ وینس اور جنیوا کی بحری طاقتیں اور بری فوجیں بھی قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہو گئیں ۔ ادھر قسطنطین نے شہر قسطنطنیہ کی فصیل کو مضبوط اور بندرگاہ کو حفاظتی سامانوں سے محفوظ کرنا شروع کر دیا۔ خاص شہر قسطنطنیہ کی آبادی میں ایک لاکھ سے زیادہ آدمی موجود تھے۔ باشندوں سے چندے وصال کیے گئے اور عام طور پر عیسائیوں کو ترغیب دی گئی کہ اب وہ آرام طلبی کو چھوڑ کر شہر کی حفاظت اور دشمن کے حملہ کی مدافعت میں اپنی تمام طاقتیں صرف کر دیں ۔ یورپ کے عیسائی مورخ حتیٰ کہ اڈمنڈ اولیور اور ای ایس کریسی بھی جو اپنی بے تعصبی اور راست گفتاری کے لیے شہرت رکھتے ہیں ۔ فتح قسطنطنیہ کے حالات بیان کرتے ہوئے اپنے یورپی اور عیسائی تعصب سے مغلوب ہو جاتے ہیں یہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح سلطان محمد خان ثانی کے اس کارنامہ کو حقیر کر کے دکھائیں اور جس طرح ممکن ہو سلطان محمد خان ثانی کی ذات پر کوئی نہ کوئی الزام لگائیں ۔ چنانچہ یہ لوگ قسطنطین کی فوج اور اس کی جنگی تیاریوں کو بیان کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کیونکہ اس طرح ان کو سلطان محمد خان ثانی کی غیر معمولی شجاعت اور حیرت انگیز استقلال کا اقرار کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال سلطان محمد خان ثانی کے آفتاب سے زیادہ روشن کارنامے ان منصف مزاج عیسائی مورخوں نے بھی خون کے گھونٹ پی پی کر لکھے ہیں ۔
سلطان محمد خان ثانی نے اپنے ایک ہوشیار آہنگر اربان نامی نومسلم کو جو ہنگری کا قدیم باشندہ اور اسلام قبول کرنے سے پیشتر قسطنطین کا نوکر رہ چکا تھا حکم دیا کہ وہ بڑی بڑی زبردست مار کی توپیں بنانا شروع کرے چنانچہ متعدد توپیں تیار ہوئیں جن میں بعض بہت ہی بڑی اور وزنی گولہ پھینکنے والی تھیں ۔ چند سال پیشتر یعنی سلطان مراد خان ثانی کے عہد حکومت سے سلطنت عثمانیہ نے لڑائیوں میں توپوں کا استعمال شروع کر دیا تھا، مگر ابھی تک یہ کوئی بہت کار آمد آلۂ جنگ نہ تھا قلعوں کی دیواریں مسمار کرنے میں توپ کا مرتبہ منجنیق سے کچھ زیادہ بلند نہ تھا چنانچہ یہ توپیں جو سلطان محمد خان نے اربان سے تیار کرائیں اور جن کی نقل و حرکت اور ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں بڑی دقت اور دشواری پیش آتی تھی۔ وہ ایسی تھیں کہ ایام محاصرہ میں صبح سے شام تک ان سے صرف سات آٹھ مرتبہ فائر ہو سکتے تھے۔ چنانچہ اسی لیے محاصرہ قسطنطنیہ میں یہ کچھ بہت مفید ثابت نہیں ہوئیں ۔ اسی طرح قسطنطین نے بھی اپنے توپ خانہ کو بہت مکمل و مضبوط بنا لیا تھا۔ فتح قسطنطنیہ کے بعد تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ یورپ کے عیسائی سلاطین اور عثمانیہ سلاطین نے لڑائیوں میں توپ کے استعمال کو بہت ترقی دی اور یہ بہترین آلۂ
|