غالباً یہ کام اس نو مسلم سردار نے محمد خان ثانی کی حمایت میں کیا اور اپنے نزدیک اچھی خدمت بجا لایا کیونکہ یہ لڑکا جوان ہو کر اپنی ماں یعنی سروین شہزادی کے سبب سرویا والوں اور دوسرے عیسائیوں سے مدد پا کر سلطان محمد ثانی کے لیے باعث تکلیف ہو سکتا تھا۔ لیکن سلطان محمد خان ثانی نے ینگ چری سردار کے اس ظالمانہ و سفاکانہ فعل کو سخت ناپسند کیا اور اپنے اس سوتیلے بھائی کے قصاص میں اس کو قتل کیا چونکہ چھ سال پہلے محمد خان ثانی اپنے باپ کے زمانے میں دو مرتبہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے لیے تخت نشین ہو کر کسی اولوالعزمی اور بلند ہمتی کا اظہار نہ کر سکا تھا، اس لیے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ کمزور اور سست رائے سلطان ثابت ہو گا۔ حالانکہ یہ قیاس کرنا ایک غلطی تھی اس زمانے میں وہ پندرہ سولہ سال کا لڑکا اور اب اکیس بائیس سال کا نوجوان تھا۔ یہ چھ سال اس نے کھیل کود میں نہیں گزارے تھے بلکہ وہ حکومت و سلطنت کی قابلیت کے بڑھانے میں برابر ترقی کرتا رہا تھا۔ عالموں اور روحانی لوگوں کی صحبتوں نے اس کے اخلاق اور قوت ارادہ کو بہت کچھ پختہ کر دیا تھا۔
یورپی مورخ عام طور پر اس کو اپنے صغیر سن سوتیلے بھائی کا قاتل بتاتے ہیں مگر وہ اپنی اس غلط بیانی میں اس لیے معذور ہیں کہ محمد خان ثانی قسطنطنیہ کا فاتح ہے اور اس کو ملزم قرار دینا شاید عیسائی مورخ ثواب سمجھتے ہیں حالانکہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ ینگ چری فوج کے سردار نے اس بچے کو قتل کیا تھا۔ اس کا بھی سب کو اقرار ہے کہ سلطان محمد خان نے اس سردار کو قصاص میں قتل کرایا۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ اس سردار نے محمد خان ثانی کے حکم سے اس کو قتل کیا تھا لیکن سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ سلطان محمد خان کو سردست اس چھوٹے بچے سے کسی قسم کا بھی کوئی اندیشہ نہ تھا۔ وہ اپنی تخت نشینی کے مراسم سے فارغ ہونے کے بعد بھی اس لڑکے کی جان لینے کی تدابیر عمل میں لا سکتا تھا۔ اس شیر خوار بچے کو تخت نشین کرنے کا کسی رکن سلطنت کو مطلق خیال تک بھی نہیں آیا تھا بلکہ سب ایڈریا نوپل میں محمد خان کا انتظار کر رہے تھے۔ ینگ چری فوج کا سردار ایشیائے کوچک سے سلطان محمد خان کے ساتھ نہیں آیا تھا بلکہ پہلے ہی سے ایڈریا نوپل میں موجود تھا۔ اگر یہ کام سلطان محمد خان کو کرانا تھا تو وہ اپنے ان سرداروں میں سے کسی کو اس کام پر مامور کرتا جو اس کے ساتھ ایشیائے کوچک سے آئے تھے اور جن پر اس کو ہر طرح کا بھروسہ تھا۔ ایڈریا نوپل میں آتے ہی ایک ایسے سردار کو جو اس کے لیے کوئی مانوس شخص نہ تھا یہ ظالمانہ حکم دینا معمولی احتیاط کے بھی خلاف تھا۔ پھر یہ کہ وہ سرادر جب اپنے اس ناشدنی کام کی پاداش میں قتل کیا گیا تو اس نے اپنی جان بچانے کے لیے اس راز کو فاش نہ کیا۔ سروین شہزادی یعنی محمد خان کی سوتیلی ماں خود ان لوگوں میں شامل تھی جو تخت نشین کی مبارک باد دینے آئے سلطان محمد خان ثانی کی آئندہ زندگی میں اس قسم کی کوئی
|