Maktaba Wahhabi

801 - 868
اور فوراً ایشیائے کوچک میں پہنچ کر اس کو شکست دینے میں کامیاب ہوا۔ مراد خان کے میدان جنگ میں آتے ہی ترکی سپاہی جن کو اس عرصہ میں مصطفی کے دعوے میں جھوٹ اور افتراکا یقین ہو گیا تھا اس کا ساتھ چھوڑ چھوڑ کر مراد خان کے پاس آنے لگے۔ مصطفی اپنی حالت نازک دیکھ کر ایشیائے کوچک سے بھاگا اور گیلی پولی میں آکر تھسلی وغیرہ پر قابض ہو گیا۔ مراد خان بھی اس کے پیچھے گیلی پولی پہنچا۔ یہاں ایک معرکہ میں اس کو شکست فاش دے کر اس کی طاقت کا خاتمہ کر دیا۔ مصطفی یہاں سے ایڈریا نوپل کی طرف بھاگا تاکہ دارالسلطنت پر قابض ہو جائے مگر ایڈریا نوپل میں وہ گرفتار کر لیا گیا اور شہر کے ایک برج میں پھانسی پر لٹکا کر اس کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اس کے بعد سلطان مراد خان نے جنیوا کی ریاست سے جو قیصر قسطنطنیہ سے رقابت رکھتی تھی۔ دوستی کا عہد نامہ کیا اور قسطنطنیہ پر اس لیے چڑھائی کی تیاریاں کیں کہ قیصر قسطنطنیہ نے ہی مصطفی باغی سے یہ فتنہ برپا کرایا تھا۔ قیصر پلیولوگس والی قسطنطنیہ نے جب یہ سنا کہ سلطان مراد خان ثانی قسطنطنیہ پر حملہ کی تیاریاں کر رہا ہے تو اس کو بہت فکر پیدا ہوئی اور اس نے اس فوری مصیبت کو ملتوی کرنے کے لیے قسم قسم کی تدابیر سوچیں ؟ مینڈھے لڑانے اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوتیں برپا کرا دینے میں اس کو بہت کمال حاصل تھا اور اسی تدبیر سے وہ عثمانیہ سلطنت کو مشکلات میں مبتلا رکھ کر اپنی حکومت کو اب تک بچائے ہوئے تھا مگر اس مرتبہ وہ بجز اس کے اور کچھ نہ کر سکا کہ اس نے اپنے سفیر سلطان کی خدمت میں روانہ کیے تاکہ قصور کی معافی طلب کر کے آئندہ صلح کا عہد نامہ دب کر کرے۔ لیکن سلطان مراد خان نے ان سفیروں کو نہایت حقارت کے ساتھ واپس کر دیا اور اپنے دربار میں بار یاب نہ ہونے دیا۔ اس کے بعد شروع جون ۱۴۲۲ء مطابق ۸۲۶ھ میں بیس ہزار انتخابی فوج لے کر سلطان مراد خان ثانی قسطنطنیہ کے سامنے آموجود ہوا۔ بڑی سختی اور شدت سے شہر کا محاصرہ کیا گیا۔ خلیج قسطنطنیہ پر لکڑی کا ایک پل تیار کر کے محاصرہ کو مکمل کیا۔ شہر قسطنطنیہ کا فتح کرنا کوئی آسان کام نہ تھا مگر سلطان مراد خان نے ایسے عزم و ہمت سے کام لیا اور محاصرہ میں سرنگوں ۔ منجنیقوں ، دمدموں ، متحرک میناروں کو اس طرح کام میں لایا کہ دم بدم فتح کی امید یقین سے تبدیل ہونے لگی۔ اس دوران محاصرہ میں قیصرہ بھی بے فکر نہ تھا اس نے ایک طرف تو مدافعت میں ہر قسم کی کوشش شروع کی اور دوسری طرف ایشیائے کوچک میں فساد برپا کرانے اور مراد خان ثانی کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی ریشہ دوانیوں میں مصروف رہا۔ قسطنطنیہ کے فتح ہونے میں ہفتوں نہیں بلکہ دنوں اور گھنٹوں کی دیر رہ گئی تھی کہ مراد خان ثانی کو محاصرہ اٹھا کر اور اب تک کی تمام کوشش کو بلا نتیجہ چھوڑ کر اسی طرح ایشیائے کوچک کی طرف جانا پڑا جس طرح کہ اس کا دادا بایزید یلدرم
Flag Counter