کھڑا ہوا اپنی فوج کو حملہ کی ترغیب دے رہا تھا۔ یہاں تک کہ رات کی تاریکی شروع ہو جانے پر جب کہ بایزید کے قریباً تمام جان نثار مارے جا چکے تھے یہ عثمانی شیر بھی کمندیں ڈال کر یا گھوڑے کے ٹھوکر کھانے سے گر جانے پر گرفتار کر لیا گیا اور میدان انگورہ میں اسلامی دنیا کی وہ تمام امیدیں جو سلطان بایزید خان یلدرم کی ذات سے وابستہ تھیں دفن ہو گئیں ۔
اگر فطرت مسخ نہ ہو گئی ہو تو انسان کا خاصہ ہے کہ وہ بہادری کی قدر کرتا اور بہادر انسان کو محبوب رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کہ ہر ایک ملک میں شیر کو جو انسان کا ہلاک کرنے والا جانور ہے عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور لوگ اس بات خواہاں رہتے ہیں کہ ان کو شیر سے تشبیہ دی جائے۔ حالانکہ بیل اور گھوڑا انسان کے بہت کام آتے ہیں مگر کوئی شخص اپنے آپ کو بیل یا گھوڑا کہلانا پسند نہیں کرتا۔ رستم کے نام کو جو شہرت اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو جو عظمت دنیا میں حاصل ہے اس کا سبب بھی وہی بہادری ہے جو فطرت انسانی کے لیے محبوب و مرغوب چیز ہے۔ رستم، رہنی، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ، سلطان صلاح الدین، نپولین عثمان پاشا وغیرہ شیر دل انسانوں کو دنیا کے ہر ملک اور ہر قوم میں یکساں عزت و عظمت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں یورپ کی جنگ عظیم کے زمانے میں جرمن کا ایک چھوٹا سا جنگی جہاز ایمڈن نامی بحر ہند اور بحرا لکاہل کی طرف نکل آیا تھا۔ اس جہاز نے عرصہ تک غیر معمولی بہادری اور جرائت کے نمونے دکھائے اور انگریزوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ لیکن جب اس کا کپتان گرفتار ہو کر انگلستان پہنچا ہے تو باشندگان انگلستان اس کی زیارت کے لیے ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے تھے اور اس کو نہایت عزت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ہم جب شاہنامہ میں رستم کی بہادریوں کے حالات پڑھتے پڑھتے اس مقام پر پہنچتے ہیں جہاں رستم ایک پر ستارزادہ شغاد نامی کے ہاتھ سے ہلاک ہوا ہے تو ہمارا دل حزن و ملال سے لبریز ہو جاتا ہے۔ حسرت و اندوہ کا سب سے زیادہ اہم اور عظیم الشان مظاہرہ اس وقت معائنہ ہو سکتا ہے جب کہ کسی بہت بڑے بہادر کا انجام ناکامی کی شکل میں نمودار ہوا ہو غالباً سلطان بایزید خان یلدرم کا انگورہ کے میدان میں گرفتار ہو جانا بھی دنیا کا ایسا ہی عظیم الشان واقعہ ہے جس کے تصور سے بے اختیار قلب پر حسرت و اندوہ کا ہجوم چھا جاتا ہے۔
میدان انگورہ میں اگر تیمور کی شکست ہوتی تو یقینا تیمور اور اس کے خاندان کو تو نقصان عظیم پہنچتا، لیکن عالم اسلام کو تیمور کی شکست سے کسی نقصان کا اندیشہ نہ تھا کیونکہ مشرقی ممالک جو تیمور کے قبضے میں تھے وہ تیمور کے بعد بھی مسلمانوں ہی کے قبضہ میں رہتے ان کی نسبت یہ اندیشہ ہرگز نہ تھا کہ اسلامی ممالک کسی غیر مذہب کی حکومت میں شامل ہو جائیں گے لیکن سلطان بایزید خان یلدرم کی شکست سے
|