کے کنارے پر رک گئے اور دریائے سندھ کے اندر ان مٹھی بھر بہادروں پر تیروں کا مینہ برساتے رہے۔ یہاں تک صرف سات آدمی مع سلطان جلال الدین کے کنارے پر پہنچ گئے۔ باقی سب دریا کے اندر مغلوں کے تیروں سے شہید ہو گئے۔ سلطان جلال الدین نے اس کنارے پر پہنچ کر اپنے کپڑے اتار کر جھاڑیوں پر سکھانے کے لیے ڈال دیئے۔ نیزہ زمین پر گاڑ کر اس کی نوک پر اپنا تاج رکھ دیا اور اس کے نیچے دم لینے لگا اور گھوڑے کے زین کو اتار کر خشک ہونے کے لیے سامنے رکھ دیا۔
چنگیز خان دوسرے کنارے پر کھڑا ہوا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور حیران تھا۔ اپنے تمام بیٹوں اور سرداروں کو جو اس کے لشکر میں موجود تھے سامنے بلا کر کہنے لگا کہ میں نے آج تک ایسا بہادر اور باہمت شخص نہیں دیکھا۔ اس کے ہمراہی بھی اس کی مانند بے نظیر بہادر ہیں ۔ اتنے بڑے عظیم الشان دریا کو اس طرح عبور کرنا بھی انہی کا کام تھا۔ اگر یہ شخص زندہ رہا تو مجھ کو اندیشہ ہے کہ دنیا سے مغلوں کا نام و نشان گم کر دے گا۔ جس طرح ممکن ہو اس کے قتل کرنے کی تدبیر سوچی جائے۔ مگر بجز اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا کہ چنگیز خان متاسف و مغموم دریائے سندھ کے کنارے سے واپس چلا گیا۔ یہ واقعہ ۶۲۰ھ کو وقوع پذیر ہوا۔
اس کے بعد سلطان جلال الدین نے سندھ میں کچھ فتوحات حاصل کیں اور اس کے ہوا خواہ یہاں آ آکر اس کے ساتھ شامل ہوتے رہے۔ چند روز کے بعد سلطان جلال الدین دریا کو عبور کر کے کرمان کی جانب پہنچا وہاں سے شیراز گیا۔ اسی عرصہ میں فدائیوں کو متواتر ہزیمتیں دے کر ان کے قریباً تمام قلعوں کو سوائے قلعہ الموت کے منہدم کر دیا۔ فدائی یا باطنی گروہ مغلوں کی اس حملہ آوری کے وقت بہت مطمئن اور مسرور تھے اور مسلمانوں کے قتل عام کی خبریں سن کر یہ لوگ بہت خوش ہو رہے تھے۔ چونکہ یہ لوگ بھی مسلمانوں کے اسی طرح دشمن تھے جیسے کہ مغل، لہٰذا ان کو مغلوں سے کوئی اندیشہ نہ تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کی تباہ حالت دیکھ کر اپنے مقبوضات کو بہت وسیع کر لیا۔ قرامطہ کی بیخ کنی سلطان جلال الدین کے قابل تذکرہ اور اہم کارناموں میں شمار ہونا چاہیے۔ اب وہ زمانہ تھا کہ مغلوں کا سیلاب شمال کی جانب متوجہ تھا۔ سلطان جلال الدین نے موقع مناسب سمجھ کر بغداد کا رخ کیا کہ وہاں جا کر خلیفہ ناصرلدین اللہ عباسی کی خدمت میں حاضر ہو کر امداد طلب کروں تاکہ مغلوں کا ممالک اسلامیہ سے اخراج و استیصال بآسانی کیا جا سکے۔ خلیفہ کو چونکہ جلال الدین کے باپ سے نفرت تھی لہٰذا اس نے جلال الدین کو بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھ کر فوراً امراء کو معمور کیا کہ جلال الدین کو آگے نہ بڑھنے دو اور ہماری مملکت سے باہر نکال دو۔ یہ رنگ دیکھ کر سلطان جلال الدین مقابلہ پر مستعد ہو گیا اور امرائے بغداد کو شکست دے کر بھگا دیا۔ پھر خود وہاں سے بجائے بغداد کے تبریز کی طرف متوجہ ہوا۔ تبریز پر قابض ہو کر گرجستان کی طرف
|