Maktaba Wahhabi

616 - 868
وہاں زمین تیار ہے تم جا کر تخم زیزی شروع کرو۔ تم کو ضرور کامیابی ہو گی۔ ابوعبداللہ شیعی کو محمد حبیب نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ ہمارا بیٹا عبیداللہ امام مہدی ہے اور تم اس کے داعی بنا کر بھیجے جاتے ہو۔ ابوعبداللہ اول یمن پہنچا۔ وہاں چند روز رہ کر اور رستم بن حسن اور دوسرے داعیوں سے دعوت و تبلیغ کے اصول اچھی طرح سیکھ کر رخصت ہوا۔ موسم حج میں مکہ پہنچا۔ وہاں شہر کتامہ کے سرداروں اور رئیسوں سے جو حج کرنے آئے تھے ملا، پھر انہی کے ہمراہ کتامہ پہنچا اور دعوت و تبلیغ کے کام میں مصروف ہو کر لوگوں کو اپنے زہد و عبادت کی نمائش سے گرویدہ بنایا۔ ابوعبداللہ شیعی ۱۵ ربیع الاول ۲۸۸ھ کو شہر کتامہ میں وارد ہوا اور بآسانی لوگوں کو امام مہدی کی آمد کا یقین دلانے لگا۔ چونکہ ابوعبداللہ شیعی سے پہلے بھی اس ملک میں علویوں کے داعی آ آکر اس قسم کے خیالات کی اشاعت کر چکے تھے لہٰذا ابو عبداللہ کو زیادہ دقت پیش نہیں آئی۔ اہل کتامہ نے ابوعبداللہ شیعی کے لیے مقام فج الاخیار میں ایک مکان بنا دیا۔ یہ وہاں رہ کر لوگوں کو وعظ و پند کے ذریعہ تعلیم دینے لگا۔ اس نے اہل کتامہ کو یقین دلایا کہ امام مہدی جس مقام پر آکر قیام کریں گے اس مقام کا نام کتمان سے مشتق ہو گا، اس لیے مجھ کو یقین کامل ہے کہ وہ یہی مقام کتامہ ہے اور جو لوگ امام مہدی کے اعوان و انصار ہونگے وہ بہترین خلائق ہوں گے۔ پس تم کو ان کا منتظر رہنا چاہیے اور تمہارا فرض ہے کہ ہمہ اوقات امام مہدی کی حمایت و اعانت کے لیے مستعد رہو۔ ابوعبداللہ کے آنے اور اس قسم کی تعلیم دینے کی اطلاع ابراہیم بن احمد بن اغلب سلطان افریقہ کو ہوئی تو اس نے ابوعبداللہ کے پاس ایک حکم بھیجا کہ تم اپنی اس گمراہ کن تعلیم کو بند کرو ورنہ تم کو سزا دی جائے گی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ تمام اہل کتامہ اور ارد گرد کے قبائل ابوعبداللہ کے دل سے منعقد ہو چکے تھے۔ ابو عبداللہ نے اپنے آپ کو طاقتور پا کر سلطان کے اس ایلچی کو نہایت سخت جواب دے کر لوٹا دیا۔ اہل کتامہ اس حال سے واقف ہو کر اپنے دل میں ڈرے کہ اب ہم حاکم افریقہ کے زیر عتاب آئیں گے۔ چنانچہ انہوں نے آپس میں مجلس مشورت منعقد کی کہ ابوعبداللہ کو اپنے ہاں سے نکال دیں یا ابراہیم بن احمد حاکم افریقہ کے پاس بھیج دیں ۔ چونکہ کتامہ کے بہت سے مولوی لوگ بھی ابوعبداللہ کے معتقد ہو گئے تھے۔ انہوں نے مخالفت کی اور ابوعبداللہ کی مدد کو ضروری بتایا۔ انہی لوگوں کی کوششوں کا نتیجہ نکلا کہ اسی علاقہ کے ایک عامل حسن بن ہارون غسانی نے ابوعبداللہ کو اپنی حمایت میں لے کر شہر تازروت میں بلا لیا۔ ادھر کتامہ والوں نے بھی ابوعبداللہ کی حمایت اور امداد پر مستعدی ظاہر کی اور ابوعبداللہ کی طاقت اب پہلے سے سہ چند ہو گئی۔ حسن بن ہارون غسانی کی اسی زمانے میں ایک دوسرے سردار مہدی بن ابی کمارہ سے مخالفت ہو گئی اور نوبت لڑائی تک پہنچی۔ مہدی بن ابی کمارہ کا ایک بھائی ابو عبداللہ شیعی کا معتقد تھا۔ اس نے ابوعبداللہ کے
Flag Counter