قلعہ مثلین کے انتظام میں مصروف اور قلعہ سے باہر ایک میدان میں خیمہ زن تھا کہ عیسائیوں کے ایک لشکر عظیم نے بالکل غیر مترقبہ طور پر حملہ کیا اور یکایک آکر مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ چونکہ اس حملہ کا وہم و گمان بھی نہ تھا۔ اس لیے مسلمانوں کی جمعیت میں سخت پریشانی پیدا ہوئی۔ عیسائیوں نے قتل کرتے ہوئے بڑھنا شروع کیا اور سلطان زغل کے خیمے کے قریب پہنچ گئے۔ مسلمانوں نے اپنے سلطان کو خطرہ کی حالت میں دیکھ کر اپنے آپ کو سنبھالا اور پوری ہمت کے ساتھ عیسائیوں پر حملہ آور ہوئے۔ بہت جلد لڑائی کا نقشہ بدل دیا۔ عیسائی بد حواس ہو کر بھاگے اور ہزار ہا لاشیں اس میدان میں چھوڑ گئے۔ ساتھ ہی عیسائیوں کا پورا توپ خانہ جو ان کے ساتھ تھا مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا۔ ان حملہ آور عیسائیوں کے پیچھے بادشاہ فرڈی نند خود بھی ایک لشکر عظیم لیے ہوئے آ رہا تھا ان مفروروں کو راستے میں روک کر حالات معلوم کیے اور آگے بڑھنے کا ارادہ کیا تو اس کو معلوم ہوا کہ سلطان زغل نے انہی توپوں کو جو عیسائیوں سے چھینی ہیں ۔ قلعہ مثلین پر چڑھا کر اس کو خوب مضبوط کر لیا ہے اور مدافعت کے لیے ہر طرح تیار ہے۔ یہ سن کر فرڈی نند کی ہمت نہ پڑی واپس چلا گیا۔ اور دوسرے قلعوں کو جو غیر محفوظ تھے فتح کرتا اور اسلامی مقبوضات کو مختصر اور تنگ کرنے میں مصروف رہا۔
فرڈی نند کو باوجود کامیابیوں کے اس بات کا کامل یقین ہو گیا کہ مسلمانوں کی حکومت کا استیصال کوئی آسان کام نہیں ہے اور اگرچہ اسلامی ریاست کا رقبہ بہت ہی محدود و مختصر رہ گیا ہے۔ تاہم اگر مسلمان متحد و متفق ہو کر شمشیر بکف ہو جائیں گے تو ان کے لیے تمام جزیرہ نمائے اندلس کا فتح کر لینا کچھ دشوار نہ ہو گا۔ جیسا کہ طارق و موسیٰ کے زمانے میں مٹھی بھر مسلمانوں نے عیسائی سلطنت کو بیخ و بن سے اکھیڑ کر پھینک دیا تھا۔ فرڈی نند کی اس مآل اندیشی اور دانائی نے اس کو چند روز کے لیے جنگی سرگرمیوں سے روک دیا۔ اور اس نے فریب و دغا سے کام لینا مناسب سمجھا اس کے پاس ابو عبداللہ محمد بن ابوالحسن جو جنگ نوشینہ میں گرفتار ہو کر آیا تھا موجود تھا۔
اس نے ابو عبداللہ محمد کو اپنے سامنے بلوا کر بڑی محبت و ہمدردی اور دل سوزی کی باتیں کیں ۔ اور کہا کہ سلطنت غرناطہ کے اصل وارث و حق دار تو تم ہو۔ تمہارے چچا زغل نے غاصبانہ طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ میری خواہش یہ ہے کہ زغل کو بے دخل کر کے تم خود سلطنت غرناطہ پر قابض و متصرف ہو۔ اس کام میں تم کو جس قسم کی ضرورت پیش آئے میں امداد کو موجود ہوں ۔ یہ بھی کہا کہ میری عین خواہش یہ ہے کہ میری ہمسایہ اسلامی سلطنت اچھی حالت میں رہے اور ہمارے درمیان کبھی جنگ و پیکار کی نوبت نہ آئے۔ غرض ابوعبداللہ محمد کو خوب سبز باغ دکھا کر اور یہ وعدہ دے کر کہ جس قدر رعایا اور شہر تیرے قبضے میں آ
|