دارالخلافہ قرطبہ کو فتح کر لیا اور اس عظیم الشان اسلامی شہر کی عظمت و بزرگی کو خاک میں ملا کر اندلس میں عیسائی سلطنت کی بنیاد کو پائیدار اور استوار بنا دیا۔ اسی تاریخ سے اندلس میں اسلامی شوکت کا خاتمہ سمجھنا چاہیے۔ ابن الاحمر نے یہ دانائی کا کام کیا کہ فرڈی نند ثالث سے صلح کر کے اور بعض شہر و قلعے اس کو دے کر اپنی طرف سے عرصہ تک مطمئن رکھا اور اس فرصت میں غرناطہ، مالقہ، لارقہ، المیریہ، جیان وغیرہ پر اپنا قبضہ جما لیا اور ایک ایسی مضبوط ریاست جزیرہ نمائے اندلس کے قریباً چوتھائی رقبہ پر قائم کر لی جو آئندہ ڈھائی سو سال تک قائم رہی اب بجائے تمام جزیرہ نمائے اندلس کے صرف جنوبی و مشرقی اندلس میں اسلامی حکومت محدود رہ گئی اور بجائے قرطبہ کے غرناطہ اسلامی اندلس کا دارالحکومت قرار پایا۔ اس چھوٹی سی اسلامی سلطنت کا رقبہ پچاس ہزار مربع میل یعنی کل جزیرہ نما کا چوتھائی تھا۔ اب ذیل میں سلطنت غرناطہ کے حالات بیان ہوتے ہیں اس کے بعد اندلس کی تاریخ ختم ہو جائے گی۔
|