مجرم اور ملزم قرار دیتے ہیں ۔
۱۹۰ھ میں مولویوں کے گروہ نے اپنی سازشوں اور کوششوں کو عملی جامہ پہنانے کا تہیہ کیا۔ قاضی القضاۃ یحییٰ بن یحییٰ اور فقیہ طالوت وغیرہ علمائے قرطبہ نے اپنے ہم خیال علماء و امراء، کو مجتمع کر کے حکم کی معزولی کا مشورہ کیا اور یحییٰ کی سرکردگی میں ایک وفد قاسم بن عبداللہ سلطان حکم کے چچیرے بھائی اور داماد کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس سے کہا کہ آپ کو ہم تخت اندلس پر بٹھانا اور بادشاہ بنانا چاہتے ہیں ۔ قاسم نے کہا کہ پہلے مجھ کو یہ معلوم ہو جانا چاہئے کہ کون کون لوگ ہیں جو اس کام پر آمادہ ہیں اگر ان کی جمعیت اور طاقت اس قابل ہے کہ وہ سلطان حکم کو معزول کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں تو میں بخوشی آپ کے مشورہ میں شریک ہو سکتا ہوں ۔ لہٰذا کل آپ ان لوگوں کے ناموں کی ایک فہرست میرے سامنے لائیں ۔ قاضی یحییٰ اس فہرست کا وعدہ کر کے واپس آئے۔ اگلے دن جب فہرست لے کر پہنچے تو قاسم بن عبداللہ نے سلطان حکم کو پہلے ہی اپنے مکان میں بلا کر اور پس پردہ چھپا کر بٹھا لیا تھا قاضی یحییٰ نے ان لوگوں کے نام قاسم کے منشی کو لکھوانے شروع کیے ادھر پس پردہ سلطان حکم کا منشی بھی سلطان حکم کے پاس بیٹھا ہوا ان لوگوں کے نام لکھ رہا تھا، حکم کے منشی کو یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں میرا بھی نام نہ لے دیا جائے، اس لیے اس نے قلم کو کاغذ پر اس طرح چلانا شروع کیا جس سے صریر قلم یعنی قلم کی آواز نکلنے لگی۔ پس پردہ لکھنے کی آواز سن کر قاضی صاحب اور ان کے ہمراہیوں کو شبہ ہوا کہ کوئی چھپا ہوا بیٹھا ہے اور ان ناموں کو لکھ رہا ہے اس شبہ کے پیدا ہوتے ہی یہ لوگ وہاں سے اٹھ اٹھ کر بھاگے۔ کچھ تو نکل گئے باقی اسی مکان میں گرفتار کر کے قتل کر دیئے گئے جن کی تعداد ۷۲ تھی۔ اس کے بعد بغاوت کا علم علانیہ بلند کر دیا گیا قرطبہ کے جنوب کی جانب دریائے وادیٔ الکبیر کے پار ایک محلہ آباد تھا۔ اس محلہ میں عام طور پر یہی لوگ رہتے تھے جو ان مولویوں کے زیر اثر اور زیادہ عیسائی قوم کے نو مسلم تھے۔ ان لوگوں نے ہجوم کر کے سلطان حکم کے محل پر حملہ کر کے محاصرہ کر لیا، مگر حکم نے سب کو منتشر کر دیا اور معمولی کشت و خون کے بعد یہ ہنگامہ فرو ہو گیا۔
اسی سال یعنی ۱۹۰ھ میں سلطان حکم نے مراکش کی نئی خود مختار حکومت ادریسیہ سے مصالحت اور دوستانہ تعلق پیدا کیا۔ مراکش میں سلطنت ادریسیہ کا خلافت بغداد سے آزاد ہو جانا حکومت اندلس کے لیے بے حد مفید ثابت ہوا اور ملک اندلس عباسیوں کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے اثر سے بہت کچھ محفوظ ہو گیا۔ سلطنت اندلس کے لیے مراکش کی خود مختاری ایک تائید غیبی تھی اور سلطان حکم نے مراکش کی حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلقات پیدا کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔ سلطان حکم نے ۱۹۱ھ تک علمائے قرطبہ
|