فرانس کے عیسائی بادشاہ نے مصر پر جہازوں کے ذریعہ فوج لا کر حملہ کیا، مملوک فوج نے نہایت بردباری کے ساتھ مقابلہ کر کے فرانس کے بادشاہ کو میدان جنگ میں گرفتار کر لیا، اس کارمانہ کے بعد مملوک فوج کا مرتبہ اور بھی بلند ہو گیا الملک الصالح کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ملک معظم توران شاہ تخت نشین ہوا، مگر دوہی مہینے کے بعد تخت سلطنت پر الملک الصالح کی محبوب کنیز شجرۃ الدر نامی قائض ہو گئی، اس ملکہ کے عہد حکومت میں بے چینی و سرکشی کے آثار نمایاں ہوئے، بلکہ شجرۃ الدر تین مہینے سلطنت کرنے کے بعد گوشہ نشین ہو گئی اور برائے نام خاندان ایوبیہ کا ایک شخص الملک الاشرف موسیٰ بن یوسف تخت نشین ہوا، اس کے عہد حکومت میں مملوکوں کا زور اور بھی ترقی کر گیا، آخر ۶۵۳ھ میں مملوکوں نے اپنی جماعت میں سے ایک شخص عزیز الدین ایبک صالحی کو الملک المعز کے لقب سے تخت نشین کیا اور مصر میں خاندان ایوبیہ کی حکومت کا سلسلہ ختم ہو کر مملوکیوں یعنی غلاموں کی حکومت شروع ہوئی جو عرصہ دراز تک رہی ۶۵۵ھ میں الملک المعز کے بعد اس کا نو عمر بیٹا علی تخت نشین ہوا اور اس کا لقب الملک المنصور رکھا گیا اور امیر سیف الدین مملوک اس کا اتابک مقرر ہوا، ۶۵۷ھ میں مملوکیوں علماء سے فتویٰ حاصل کر کے الملک المنصور کو اس لیے معزول کیا گیا کہ وہ ابھی بچہ تھا اس کی جگہ امیر سیف الدین تخت نشین ہوا اور الملک المظفر اس کا خطاب تجویز ہوا، عام طور پر مملوک اپنے اندر سے بیس پچیس آدمیوں کو منتخب کر کے ان کو حکومت کا اختیار دے دیا کرتے تھے، یہی بیس پچیس آدمی حکمران کونسل کے ممبر سمجھے جاتے اور اپنے اندر سے کسی ایک شخص کو منتخب کر کے اپنا صدر یا امیر بنا لیتے تھے یہ صدر منتخب ہو کر بادشاہوں کی طرح تخت نشین ہوتا اور سلطان یا ملک کے نام سے پکارا جاتا تھا، سلطان تخت نشین ہونے کے بعد باقی ممبران کو نسل کو سلطنت کے بڑے بڑے ملکی عہدے سپرد کرتا تھا، ان بیس یا پچیس عہد یداروں ہی میں سے کوئی وزیراعظم ہوتا تھا کوئی رئیس العسکر، کوئی افسر پولس ہوتا تھا، کوئی افسر مال، غرض ان کے سوا باقی لوگوں کو ان سے کم درجے کے عہدے اور اختیارات ملتے تھے، ان کا مرتبہ سب پر فائق ہوتا تھا، مملوک فوج کے کچھ آدمی فوت ہوجاتے یا لڑائی میں مارے جاتے تو فوراً سرکاری خزانہ سے اسی قدر سر کیسی غلام خرید کر تعداد کو پورا کر دیا جاتا تھا، اس نظام پر چراکسمہ یعنی مملوکوں کے طبقہ دوم نے زیادہ عمل در آمد کیا، ہندوستان میں بھی غلاموں کا خاندان حکمران رہا ہے مگر اس میں دو تین بادشاہوں کے سوا باقی سب بادشاہ شمس الدین التمش کی اولاد سے تھے اور اس میں وہی وراثت حکومت کی لعنت موجود تھی، لیکن مصر کے تخت پر متمکن ہونے والے مملوک اکثر زر خرید غلام ہی ہوتے تھے، اور اپنی ذاتی قابلیت کے سبب تخت حکومت تک پہنچتے تھے، مورخین نے اس طرف توجہ نہیں فرمائی اور دولت مملوکیہ مصر کی اس خصوصیت کو نمایاں اور واضح تر الفاظ میں بیان نہیں کیا، مگر
|