Maktaba Wahhabi

298 - 868
سلیمان شاہ بن سلطان محمد اپنے چچا سنجر کے پاس رہتا تھا اس کو سلطان سنجر نے اپنا ولی بھی بنایا تھا، جب سلطان سنجر کو ترکوں نے گرفتار کر لیا تو سلیمان شاہ اس کے بقیہ لشکر کی سرداری کرنے لگا اور خراسان میں اپنے لیے کوئی مامن نہ دیکھ کر بغداد چلا آیا۔ ماہ محرم ۵۵۱ھ میں خلیفہ کے دربار میں حاضر ہوا، خلیفہ کی بیعت کی اور نائب السلطنت مقرر ہوا، اس کے نام کا خطبہ بغداد میں پڑھا گیا، ماہ ربیع الاول ۵۵۱ھ میں سلیمان شاہ بغداد سے بلاد جبل کی طرف روانہ ہوا۔ ماہ ذی الحجہ ۵۵۱ھ میں سلطان محمد نے والی موصل اور دوسرے سرداروں کو اپنے ساتھ شامل کر کے بغداد پر چڑھائی کی اور شہر کا محاصرہ کر لیا، لشکر موصل قطب الدین کو اس کے بڑے بھائی نورالدین زنگی نے ملامتانہ خط لکھا کہ تم کو محاصرہ بغداد میں شریک نہیں ہونا چاہیے تھا، اس لیے قطب الدین زنگی خلیفہ کے خلاف جنگ کرنے سے جی چرا رہا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ربیع الاول ۵۵۲ میں سلطان محمد محاصرہ اٹھا کر ہمدان کی طرف چلا گیا اور قطب الدین نے موصل کی طرف کوچ کیا۔ سلطان محمد بن محمود بن ملک شاہ محاصرہ بغداد کے بعد بعارضۂ سل بیمار ہو کر ہمدان میں مقیم رہا اور ماہ ذی الحجہ ۵۵۴ھ میں بمقام ہمدان فوت ہوا، اس کے بعد سلجوقی شہزادوں میں تخت نشینی کے متعلق اختلاف رہا، آخر سلطان محمد کے چچا سلیمان شاہ کو جو آج کل موصل میں قطب الدین زنگی کی حراست میں تھا طلب کر کے تخت نشین کیا گیا، اس کے بعد سلیمان شاہ کو سلجوقی شہزادوں کا مقابلہ کرنا پڑا، آخر اس کی حکومت قائم ہو گئی مگر سلیمان شاہ کے ایک سردار شرف الدین نے اس کو اور اس کے وزیر کو گرفتار کر کے قتل کر دیا۔ اس کے بعد شرف الدین نے ارسلان شاہ بن طغرل کے تخت نشین کرنے کی تجویز کی اور اس کے اتابک ایلدکز کو لکھا کہ اپنے ہمراہ ارسلان شاہ کو لے آؤ چنانچہ ایلدکز مع فوج ہمدان آ پہنچا اور ارسلان شاہ کے نام کا خطبہ ہمدان میں پڑھوایا، ایلدکز سلطان مسعود کے غلاموں میں سے تھا، اس نے سلطان طغرل کی وفات کے بعد اس کی بیوی، یعنی ارسلان شاہ کی ماں سے نکاح کر لیا تھا، اب ارسلان شاہ کی تخت نشینی کی رسم ادا ہونے کے بعد وہی اتابک اعظم مقرر ہوا اور بغداد میں خلیفہ کے پاس درخواست بھیجی کہ ارسلان شاہ کے نام کا خطبہ بغداد میں پڑھوایا جائے، خلیفہ نے ایلچی کو بے عزت کرکے نکلوا دیا۔ خلیفہ کے وزیر نے محمود بن ملک شاہ بن محمود کے نام کا خطبہ جاری کرنے کی تحریک کی، اس زمانہ میں محمود بن ملک شاہ بن محمود کو جو نو عمر لڑکا تھا اس کے باپ کے مصاحب فارس کی طرف لے کر گئے تھے، وہاں فارس کے حاکم زنگی بن وکلا سلغری نے ان لوگوں سے محمود کو چھین کر قلعہ اصطخر میں نظر بند کر دیا تھا، خلیفہ کے وزیر عون الدین ابوالاظفر یحییٰ بن ہبیرہ نے زنگی بن وکلا حاکم فارس کو لکھا کہ تم محمود کو آزاد کر کے
Flag Counter