نے جا کر محاصرہ ڈالا، ادھر ارسلان بن طغرل بن سلطان محمد نے ایک فوج لے کر وزیر پر حملہ کیا، یہ خبر سنتے ہی خلیفہ مقتفی خود بغداد سے روانہ ہوا، مقام عقر بابل پر دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا، اٹھارہ دن کی لڑائی کے بعد خلیفہ کے لشکر کا اکثر حصہ فرار ہوا مگر خلیفہ بڑی بہادری کے ساتھ بقیہ لوگوں کو لیے ہوئے مقابلہ کرتا رہا حتی کہ خلیفہ کو فتح حاصل ہوئی، ارسلان بن طغرل اور اس کے ہمراہی سردار سب میدان چھوڑ کر بھاگ گئے، یکم شعبان ۵۴۹ھ کو خلیفہ بغداد واپس آیا، ۵۵۰ھ میں خلیفہ مقتفی نے وقوقا پر فوج کشی کی مگر چند روزہ محاصرہ کے بعد بغداد واپس آیا۔ اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ ۴۹۰ھ میں سلطان برکیارق نے سلطان سنجر کو خوزستان کی حکومت سپرد کی تھی، جب سلطان محمد اور سلطان برکیارق میں مخالفت اور لڑائی ہوئی تو سلطان محمد نے اپنے حقیقی بھائی سنجر کو خراسان کی حکومت سپرد کر دی، اسی وقت سے سلطان سنجر کے قبضے میں خراسان کا ملک برابر رہا اور ان کو سلطان محمد کے بیٹے سلطان العراق کے نام سے یاد کرتے رہے۔ ۵۳۶ھ میں ترکوں کے ایک گروہ نے جو ترکان خطا کے نام سے موسوم تھا، ماوراء النہر کے علاقہ کو خوانین ترکستان سے چھین لیا، سلطان سنجر نے اس گروہ خطاء کو ماوراء النہر سے نکالنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوا اور بہت سے کار آزمودہ سردار اس لڑائی میں مقتول ہوئے۔ سلطان سنجر کے کمزور ہو جانے کے سبب اس کے ماتحت حکمرانوں نے زور پکڑا اور اسی سلسلہ میں خوارزم شاہ بھی خود مختار ہو گیا، ماوراء النہر میں جو ترک رہتے تھے اور ترکان غز کہلاتے تھے، انہوں نے خراسان میں آکر لوٹ مار اور بد امنی پھیلا دی۔ ۵۴۸ھ میں ان ترکوں اور سلطان سنجر کے درمیان لڑائی ہوئی جس میں سلطان سنجر کو شکست ہوئی اور گرفتار ہو گیا، ان نئے فاتحین نے سلطان سنجر کو قید کر کے اپنے ساتھ رکھا اور خراسان کے شہروں کو لوٹتے ہوئے پھرنے لگے اور ماوراء النہر میں ترکان خطا کو بھی شکستیں دینے لگے، ترکان غز نے سلطان سنجر کو قید کر کے ایک سائیس کے برابر اس کی تنخواہ مقرر کی تھی اور لطف یہ کہ تمام بلاد خراسان میں خطبہ سلطان سنجر ہی کے نام کا جاری رکھا تھا۔
۵۵۱ھ میں سلطان سنجر قید سے نکل بھاگا اور ۵۵۲ھ میں بحالت ناکامی فوت ہوا، اس کے بعد خوارزم شاہ اور اس کی اولاد نے تمام خراسان پر قبضہ کر لیا اور اصفہان ورے کے صوبوں اور آل سبکتگین کے زیر اثر صوبوں پر بھی متصرف ہو گئے اور چنگیز خاں کے خروج تک قابض رہے غرض کہ خلیفہ مقتفی لامراللہ کے عہد میں دولت خوارزم شاہیہ کی بنیاد قائم ہوئی۔ ۵۴۹ھ میں خلیفہ مقتفی نے نورالدین محمود بن عمادالدین زنگی والی حلب کو مصر کی جانب جانے کا حکم دیا کہ وہاں عبیدی حاکم مصر کے پر اختلال کاموں میں دخیل ہو، اسی سال نورالدین محمود کو الملک العادل کا خطاب دیا گیا۔
|