Maktaba Wahhabi

290 - 868
ہمدان پر قبضہ کیا، یہ خبر جب بغداد میں پہنچی تو یہاں سلطان سنجر کے نام کا خطبہ پڑھا گیا۔ سلطان محمود نے بعد شکست اصفہان میں جا کر دم لیا، آخر سلطان سنجر کی ماں یعنی سلطان محمود کی دادی نے کوشش کر کے دونوں میں صلح کرا دی، شرط یہ قرار پائی کہ سلطان سنجر سلطان محمود کو اپنا ولی عہد تسلیم کرے اور خطبوں میں سنجر کے بعد محمود کا نام لیا جائے، چنانچہ اسی شرط کے موافق سلطان سنجر نے ماوراء النہر غزنہ، خراسان وغیرہ اپنے ممالک میں سلطان محمود کی ولی عہدی کے فرامین بھیج دے، صرف رے کا علاقہ سلطان سنجر نے سلطان محمود کے مقبوضہ ممالک سے اپنے قبضہ میں لے کر باقی تمام ممالک پر اس کی حکومت کو تسلیم کیا، ادھر سلطان محمود نے اپنے بھائی سلطان مسعود سے صلح کر کے اس کو موصل و آذربائیجان کے صوبے دے دیے اور اس نے موصل کو اپنا مستقر حکومت بنایا۔ ۵۱۴ھ میں سلطان مسعود نے اپنی خود مختاری اور سلطان محمود کی مخالفت کا عَلم بلند کیا، ۱۵ ربیع الاول ۵۱۴ھ کو دونوں بھائیوں میں لڑائی ہوئی، مسعود کو شکست ہوئی اور موصل کے قریب جا کر پہاڑوں میں پناہ لی، امراء نے درمیان میں پڑ کر دونوں بھائیوں میں صلح کرا دی، سلطان محمود ماہ رجب ۵۱۴ھ میں بغداد واپس آگیا اور سلطان مسعود پھر موصل میں حکومت کرنے لگا۔ ۵۱۵ھ میں سلطان محمود نے موصل کی حکومت آقسنفر برسقی کو دی اور مسعود کے پاس آذربائیجان کا صوبہ رہا۔ سلطان طغرل کا ذکر اوپر آچکا ہے، وہ سلطان محمود سے شکست کھا کر گنجہ میں چلا آیا تھا، ۵۱۶ھ میں سلطان محمود اور سلطان طغرل کے درمیان صلح نامہ لکھا گیا، اس کے بعد سلطان محمود نے آقسنفر برسقی کو موصل کے علاوہ واسط کا علاقہ بھی جاگیر میں دے دیا، آقسنفر برسقی نے اپنی طرف سے قسم الدولہ عماد الدین زنگی بن آقسنفر کو واسط کی حکومت پر مامور کیا، ۵۱۷ھ میں سلطان محمود نے اپنے وزیر شمس الملک کو قتل کر دیا اور شمس الملک کے بھائی نظام الدولہ کو خلیفہ مسترشد باللہ نے اپنی وزارت سے معزول کیا۔ ماہ ذی الحجہ ۵۱۷ھ میں خلیفہ مسترشد باللہ نے خود فوج تیار کر کے دیبس بن صدقہ کی سرکوبی کے لیے بغداد سے کوچ کیا، موصل و واسط کی فوجیں بھی خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، مقام مبارکہ میں لڑائی ہوئی، اس لڑائی میں عماد الدین زنگی بن آقسنفر والی واسط نے بڑی بہادری اور جان فروشی دکھائی اور خلیفہ نے فتح پائی، ۱۰ محرم ۵۱۸ھ کو خلیفہ مظفر و منصور بغداد میں داخل ہوا، یہ غالباً پہلی جنگ تھی جو عرصہ دراز کے بعد عباسی خلیفہ کی سپہ سالاری میں ہوئی، اس کے بعد معلوم ہوا کہ دیبس بن صدقہ بصرہ کو لوٹنا چاہتا ہے، چنانچہ عماد الدین زنگی بن آقسنفر بصرے کی حفاظت کے لیے مامور ہو کر روانہ ہوا اور دیبس وہاں سے ناکام و نامراد ہو کر ملک طغرل بن سلطان محمد کے پاس چلا گیا۔ اسی سال یعنی ۵۱۸ھ میں آقسنفر برسقی جو شحنہ عراق مقرر ہو چکا تھا اور موصل میں رومیوں کے حملوں کے روکنے کی تدابیر میں مصروف تھا، عماد
Flag Counter