Maktaba Wahhabi

283 - 868
ہوا اور بخارا سے بیس فرسنگ کے فاصلہ پر ایک سبزہ زار میں سر رہ گزر مقیم ہوا۔ اس قبیلے کے سردار کا نام سلجوق تھا۔ یہ لوگ اپنے پیش رو ترکوں کی نسبت مہذب اور شریف الطبع تھے۔ ان کے مویشی ان کے ہمراہ تھے۔ ان کی جمعیت کثیر تھی۔ ان کے جسم زیادہ مضبوط اور یہ لوگ شریف و معزز ہونے کی وجہ سے زیادہ بہادر بھی تھے۔ سلطان محمود غزنوی کے عامل نے طوس سے محمود غزنوی کو اس نئے قبیلے کے آنے کی اطلاع دی اور لکھا کہ ان لوگوں کا بخارا کے متصل خیمہ زن ہونا خطرہ سے خالی نہیں ہے۔ سلطان محمود غزنوی نے اس طرف خود توجہ کی اور وہاں پہنچ کر ان ترکوں کے پاس پیام بھیجا کہ اپنا ایک نمائندہ ہمارے دربار میں بھیجو۔ وہاں سے ارسلان بن سلجوق یا اسرائیل بن سلجوق دربار محمودی میں حاضر ہوا۔ محمود غزنوی نے اس کو بطور یرغمال اور بطور ضمانت امن و امان گرفتار کرکے ہندوستان کے قلعہ میں بھیج دیا۔ دو تین سال کے بعد محمود غزنوی فوت ہوگیا اور ترکوں کا یہ قبیلہ اپنے سامنے خراسان کے میدانوں کو سہل الحصول دیکھ کر خراسان میں پھیل گیا۔ جو قبائل ان سے پہلے آآکر خراسان میں مصروف و غارت گری تھے، وہ بھی سب آآکر ان میں شامل ہونے شروع ہوگئے۔ محمود غزنوی کے بیٹے مسعود غزنوی نے ان کو روکا ٹوکا اور متعدد لڑائیاں ہوئیں مگر بالآخر انہوں نے غزنویوں کو خراسان سے بے دخل کرکے خراسان پر قبضہ کرلیا۔ محمود غزنوی کی اولاد دم بہ دم کمزور ہوتی گئی اور انہوں نے اس قبیلے یعنی سلجوقی سے صلح کرکے خراسان سے دست بردار ہوجانے کو غنیمت سمجھا۔ بویہ کی اولاد آپس کی خانہ جنگی میں مبتلا تھی۔ نیز اس میں سلجوقیوں کے مقابلہ کی قابلیت و ہمت بھی نہ تھی۔ لہٰذا سلجوقیوں نے حیرت انگیز طور پر ترقی کے مدارج طے کیے۔ بغداد میں چونکہ عباسی خلیفہ موجود تھا، اس لیے سلجوقیوں کے دلوں میں اس کا ادب بہت زیادہ تھا۔ سلجوقی قبیلہ اپنی ملک گیری کا سلسلہ شروع کرنے سے پہلے ہی نواح بخارا کے میدانوں میں اسلام کو قبول کرچکا تھا اور شیعوں کے اثر سے متاثر نہ ہوا تھا کیونکہ ماوراء النہر اور بخارا وغیرہ میں تمام مسلمان سنی مذحب رکھتے تھے اور یہی سلجوقیوں کا مذہب تھا۔ جو لوگ بنو بویہ کے مظالم سے تنگ آچکے تھے، انہوں نے بھی سلجوقیوں کو اپنے لیے فرشتہ رحمت سمجھا۔ سلجوقیوں کے سردار طغل بیگ نے خراسان، آذربائیجان، جزیرہ وغیرہ کو اوّل فتح کرکے اپنی طاقت کو بڑھایا۔ اس کے بعد جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ بغداد کی طرف متوجہ ہوا۔ اس طرح دیلمیوں کو بے دخل کرکے بغداد میں خود نائب السلطنت کا مرتبہ پایا اور ایک عرصہ دراز تک اس کے خاندان میں حکومت رہی اور اس کے جانشین الپ ارسلان سلجوقی نے دریائے ڈینیوب سے دریائے سندھ تک ایک عظیم الشان سلطنت جو ہر طرح نہایت مضبوط و با ہیبت تھی، قائم کی۔ بہرحال اب ہم کو خلیفہ قائم بامر اللہ کے بقیہ حالات کی طرف ملتف ہونا چاہیے۔ سنہ ۴۱۵ ھ
Flag Counter