عامل بنا کر عشر بھی وصول کرنا شروع کر دیا، آخر اطروش نے ان نو مسلموں کی ایک جمعیت مرتب و مسلح کر کے قزوین و سالوس وغیرہ سرحدی شہروں پر حملہ کیا اور ان سب کو اسلام کی دعوت دے کر اسلام میں داخل کر لیا۔
طبرستان کی ولایت سامانی حکمران کے علاقہ میں شامل تھی، طبرستان کے سامانی عامل نے ظلم و ستم پر کمر باندھی، اطروش نے اہل دیلم کو ترغیب دی کہ طبرستان پر حملہ کرو، چنانچہ ۳۰۱ھ میں اطروش نے اہل دیلم کی ایک فوج مرتب کر کے طبرستان پر حملہ کیا اور محمد بن ابراہیم بن صعلوک حاکم طبرستان کو شکست دے کر بھگا دیا اور خود طبرستان پر قابض ہو گیا۔
اطروش کے بعد اس کا داماد حسن بن قاسم اور اس کی اولاد طبرستان، جرجان، ساریہ آمد اور استر آباد پر قابض و متصرف ہوئی، مگر ان سب کے فوجی سردار و سپہ سالار دیلمی لوگ تھے، ان دیلمیوں میں ایک شخص لیلیٰ بن نعمان تھا جس کو حسن بن قاسم نے جرجان کی حکومت سپرد کی تھی، یہ لیلیٰ بن نعمان ۳۰۹ھ میں سامانیوں سے لڑتا ہوا مارا گیا، اس کے بعد سامانیوں نے بنی اطروش پر متعدد حملے کیے، ان حملوں کی مدافعت بنی اطروش کی طرف سے سرخاب نامی ایک دیلمی سپہ سالار نے کی اور اسی میں وہ مارا گیا۔ سرخاب کا چچا ماکان ابن کانی دیلمی بنی اطروش کی طرف سے استر آباد کی حکومت پر مامور تھا۔
ماکان نے اپنے ہم وطن دیلمیوں کو اپنے گرد جمع کر کے ایک فوج مرتب کی اور جرجان پر قبضہ کر لیا، ان دیلمیوں میں جو ماکان کے معاون ہوئے تھے، ایک نامور سردار اسفار بن شیرویہ دیلمی تھا۔
ماکان نے اپنی خود مختار حکومت قائم کر کے طبرستان کے اکثر حصہ پر قبضہ کر لیا اور اسفار بن شیرویہ کو کسی بات پر ناراض ہو کر نکال دیا، اسفار ماکان سے جدا ہو کر بکر بن محمد بن الیسع کے پاس نیشاپور چلا گیا جو سامانیوں کی طرف سے نیشاپور کا عامل تھا۔
بکر بن محمد نے اسفار کو ایک فوج دے کر جرجان کے فتح کرنے کو روانہ کیا ان دنوں ماکان طبرستان میں تھا، اور اس کا بھائی ابو الحسن بن کافی اپنے بھائی کی طرف سے جرجان میں مامور تھا۔
یہاں ابو علی بن اطروش بھی مقیم تھا اور اس کے قبضہ میں کوئی حکومت باقی نہ رہی تھی، ابو علی نے موقع پا کر ایک دن ابو الحسن کافی کو قتل کر دیا اور دیلمیوں کی اس فوج نے جرجان میں مقیم تھی، ابو علی کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ ابو علی نے اپنی طرف سے علی بن خورشید دیلمی کو جرجان کی حکومت پر مامور کیا۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ اسفار سامانیوں کی طرف سے فوج لیے ہوئے جرجان کے قریب پہنچ چکا تھا، علی بن خورشید نے اسفار کو لکھا کہ تم بجائے اس کے کہ ہم پر حملہ کرو ہمارے ساتھ مل کر ماکان پر جو طبرستان میں
|