تھی اور تم کو خراج بھی دیتی رہی، لیکن یہ اس کی نادانی تھی، اب تم کو چاہیے کہ جس قدر خراج تم ہماری سلطنت سے وصول کر چکے ہو وہ سب واپس کرو اور جرمانہ میں ہم کو خراج دینا منظور کرو، ورنہ پھر تلوار کے ذریعے تم کو سزا دی جائے گی۔‘‘
یہ خط جب ہارون الرشید کے پاس پہنچا تو اس کے چہرے سے اس قدر طیش و غضب کے آثار نمایاں ہوئے کہ امراء و وزراء اس کے سامنے دربار میں بیٹھنے کی تاب نہ لا سکے اور خاموشی و آہستگی کے ساتھ دربار سے کھسک آئے۔ ہارون نے اسی وقت قلم و دوات لے کر اس خط کی پشت پر لکھا کہ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم …از جانب امیرالمومنین ہارون الرشید بنام سگ روم۔ او کافر کے بچے! میں نے تیرا خط پڑھا۔ اس کا جواب تو آنکھوں سے دیکھے گا سننے کی ضرورت نہیں …… فقط‘‘
یہ جواب لکھ کر خط واپس بھیج دیا اور اسی روز لشکر لے کر بغداد سے بلاد روم کی طرف روانہ ہو گیا اور جاتے ہی رومیوں کے دارالسلطنت ہرقلہ کا محاصرہ کر لیا۔ نقفور حیران و پریشان ہو گیا اور تاب مقاومت نہ لا کر ہارون الرشید کی خدمت میں عفو تقصیرات کا خواہاں ہوا اور جزیہ دینے کا اقرار کیا۔ ہارون تقفور کو مغلوب و ذلیل کر کے پہلے سے زیادہ جزیہ ادا کرنے کا اقرار لے کر واپس ہوا۔ ابھی شہر رقہ تک ہی واپس آیا تھا کہ نقفور نے نقض عہد کیا اور پھر بغاوت پر آمادہ ہو گیا۔ اس کو یقین تھا کہ موسم سرما کی شدت کے سبب مسلمانوں کی فوجیں فوراً حملہ آور نہیں ہو سکتیں ، مگر ہارون الرشید یہ سنتے ہی شہر رقہ سے پھر ہرقلہ کی جانب روانہ ہوا اور بلاد روم میں داخل ہو کر بہت سے قلعوں کو فتح کر کے مسمار کر دیا اور فتح کرتا ہوا نقفور تک پہنچ گیا۔ اس نے پھر عاجزانہ معافی کی درخواست پیش کی۔ ہارون الرشید نے اس سے جزیہ کی رقم تمام و کمال وصول کی اور اکثر حصہ ملک پر اپنا قبضہ جما کر واپس ہوا۔
اسی سال یعنی ۱۸۷ھ میں ابراہیم ادھم نے وفات پائی۔
۱۸۵ھ میں قیصر نقفور نے پھر سرکشی کے علامات ظاہر کیے۔ لہٰذا ابراہیم بن جبرئیل نے حدود صفصاف سے بلاد روم پر حملہ کیا۔ قیصر روم خود مقابلہ کے لیے نکلا لیکن تاب مقابلہ نہ لا سکا شکست فاش کھا کر اور چالیس ہزار رومیوں کو قتل کرا کر فرار ہو گیا۔ اسلامی لشکر رومیوں کو شکست دے کر واپس چلا آیا۔
۱۸۹ھ میں خلیفہ ہارون الرشید رے کی طرف گیا اور خراسان کی طرف کے صوبوں کا عمال کے عزل و نصب سے جدید انتظام کیا۔ مرزبان دیلم کے پاس امان نامہ بھیج کر اس کی دل جوئی کی۔ سرحدوں کے رؤساء اور فرمانروا اس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی فرماں برداری کا یقین دلایا۔ طبرستان، رے، قومس اور ہمدان وغیرہ کی حکومت عبدالملک بن مالک کو مرحمت کی۔ اسی سال رومیوں اور
|