وہ نہایت اہتمام و احتیاط کے ساتھ ابو مسلم خراسانی کے خون کا بدلہ لینے کی تیاری کر چکے ہیں ۔ ان باتوں کو سن کر ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ ہارون کے دل پر کیا گزری ہو گی اور کس طرح اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو گی۔ ایک طرف برمکیوں کا اقتدار و اختیار اس کی آنکھوں کے سامنے تھا دوسری طرف اس نے یہ باتیں سنیں ، چنانچہ علی بن عیسیٰ کی اس نے ہمت افزائی کر کے مرو کی جانب رخصت کر دیا اور اپنے قلبی تاثرات کو احتیاط کے ساتھ پوشیدہ رکھ کر واپس ہوا۔
علی بن عیسیٰ کے رخصت ہونے کے بعد اب فضل بن ربیع کو موقع ملا اور اس نے یہ وحشت انگیز خبر ہارون کے گوش گزار کی کہ جعفر برمکی نے یحییٰ بن عبداللہ کو رہا کر دیا ہے اور وہ خروج کی تیاریوں کے لیے کہیں چلے گئے ہیں ۔ ہارون نے جعفر سے برسبیل تذکرہ یحییٰ بن عبداللہ کا حال دریافت کیا۔ جعفر نے کہا کہ وہ میرے پاس بدستور نظر بند ہیں ۔ ہارون نے کہا، کیا تم یہ بات قسمیہ کہہ سکتے ہو؟ یہ سنتے ہی جعفر حواس باختہ سا ہو گیا اور سمجھ گیا کہ راز افشاء ہو چکا ہے۔ اس نے سنبھل کر کہا کہ یحییٰ بن عبداللہ کو میرے زیر نگرانی رہتے ہوئے عرصہ دراز گزر چکا تھا اور مجھ کو ان کی طرف سے کسی قسم کے خطرہ کا اندیشہ نہ رہا تھا، اس لیے میں نے ان کے رہا کر دینے میں کوئی ہرج نہیں دیکھا۔
ہارون کے لیے یہی سب سے زیادہ نازک موقع تھا۔ اس وقت اگر وہ کسی ناراضی کا اظہار کرتا تو پھر برامکہ ہرگز ہرگز اس کے قابو میں نہیں آ سکتے تھے اور وہ فوراً اپنی حفاظت کے لیے وہ تمام سامان کام میں لے آتے جو اب تک مادی اور معنوی اعتبار سے وہ فراہم کر چکے تھے۔ ہارون کے لیے برامکہ کا مقابلہ ہرگز آسان نہ تھا اور ممکن تھا کہ وہ ہارون کو سانس لینے اور اف کرنے کا بھی موقع نہ دیتے۔ کیونکہ خاص یحییٰ بن خالد کے بیٹوں اور پوتوں میں پچیس آدمی جو صاحب سیف و قلم تھے۔ ہارون کے محل میں مختلف حیثیتوں اور مختلف بہانوں سے ہمہ وقت موجود رہتے تھے، تمام ملکوں کے انتظام و اہتمام کی کنجی برامکہ کے ہاتھ میں تھی۔ فوجوں کے سردار سب ان کے آوردے اور انہی کے فرماں بردار تھے۔ انتظامی افسر اور دفتروں کے اعلیٰ عہدے دار سب انہی کے رکھے ہوئے تھے۔ علماء و فقہاء و صوفیاء بھی ان کی گرفت سے باہر نہ تھے کیونکہ وہ ان لوگوں کی بڑی خدمت کرتے اور ان کو زیر بار احسان کرتے تھے۔ شعراء سب انہی کے قصیدہ خوان تھے۔ تمام رعایا میں ان کی سخاوت کی شہرت تھی اور اس لیے وہ مغرب سے لے کر مشرق تک محبوب خلائق بن چکے تھے۔
یہ وہ عظیم الشان تیاریاں تھیں کہ میدان میں نکل کر ایک ہارون کیا کئی ہارون بھی شاید کامیاب نہ ہوتے۔ لیکن ہارون نے اپنے آپ کو سنبھالا اور جعفر سے یحییٰ بن عبداللہ کے رہا ہونے کا حال سن کر
|