Maktaba Wahhabi

95 - 868
جعفر بن یحییٰ نے اپنے عہد وزارت میں سلطنت کے تمام عہدوں اور تمام صیغوں پر اس طرح تسلط جما لیا کہ حقیقتاً وہی سلطنت کا مالک اور اصل فرمانروا سمجھا جانے لگا۔ بغداد کی تمام پولیس بغداد کے بڑے بڑے محلات سب اس کے قبضہ میں تھے۔ ولایتوں کے عامل، صوبوں کے گورنر فوج کے افسر سب اسی کے آوردہ تھے۔ خزانہ کا وہی مالک و مہتمم تھا حتیٰ کہ ضرورت کے وقت ہارون الرشید کو جعفر ہی سے روپیہ مانگنا پڑتا تھا۔ یحییٰ بن خالد کے اور بھی کئی بیٹے تھے جو بڑی بڑی فوجوں کے افسر تھے۔ اپنے ان اختیارات اور اقتدار سے یحییٰ اور اس کے بیٹوں نے نہایت خوبی کے ساتھ فائدہ اٹھایا یعنی انہوں نے بڑی بڑی جاگیروں اور وظیفوں کی آمدنی کے علاوہ خزانہ سلطنت کے روپیہ کو بھی سخاوت اور داد و دہش میں بے دریغ خرچ کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی سخاوت حاتم کی طرح مشہور ہو گئی۔ کوئی شخص ایسا نہ تھا جو خاندان برمک کا مداح اور ہوا خواہ نہ ہو، انہوں نے خوب روپیہ حاصل کیا اور اس کو بلا دریغ خرچ کر کے اپنی قبولیت و ناموری خریدی۔ یہاں تک کہ صرف خراسان و عراق ہی میں نہیں ، بلکہ شام و مصر و عرب و یمن اور دور دور کے ملکوں میں لوگ ان کی مدح سرائی کرتے اور ان کی سخاوت اور بذل مال کی تعریف میں قصائد لکھتے تھے۔ خاندان برمک کی عزت، قبولیت، اختیار، اقتدار، قوت و طاقت، مال و دولت معراج کمال کو پہنچ چکی تھی۔ بجز اس کے کہ وہ تخت خلافت پر نہیں بیٹھے تھے باقی اور تمام چیزیں ان کو حاصل تھیں ۔ وہ ان کے باوجود ہارون الرشید کی منشا کے خلاف کوئی حرکت نہیں کرتے تھے۔ اس لیے ہارون الرشید یا ہارون الرشید کے کسی ہوا خواہ کو یہ موقع ہی حاصل نہ تھا کہ ان کے اس اقتدار و عظمت کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھے۔ لیکن اگر اس اقتدار و قوت اور اس اختیار و تسلط کی تہ میں کوئی بد نیتی یا بغاوت پوشیدہ ہو تو پھر ہارون الرشید کے لیے ان سے بڑھ کر کوئی دوسرا دشمن نہیں ہو سکتا تھا۔ ۱۸۷ھ کی ابتدا میں یکایک دیکھا گیا کہ ہارون الرشید نے خاندان برمک کے ساتھ وہ برتاؤ کیا جو دشمنوں سے کیا جاتا ہے۔ پس ہم کو اس وقت یہ دیکھنا اور تحقیق کرنی چاہیے کہ آیا برامکہ نے حقیقتاً ہارون الرشید کی سلطنت کے خلاف کوئی منصوبہ اور سازش شروع کر رکھی تھی یا نہیں ، اور ہارون ان کے اس مخالف منصوبے سے واقف ہو گیا تھا یا نہیں ۔ اگر واقعی برامکہ ہارون اور عباسی خلافت کے خلاف کچھ کرنا چاہتے تھے تو ہارون نے ان کے ساتھ جو آخری سلوک کیا وہ سراسر جائز اور ہر طرح مناسب تھا۔ لیکن اگر برامکہ کا ظاہر اور باطن یکساں تھا اور وہ خلوص کے ساتھ ہارون کے فرماں بردار تھے تو ہارون سے بڑھ کر کوئی نا قدر شناس اور ظالم نہیں ہو سکتا۔ سطحی نگاہ والوں کے لیے برامکہ کی بربادی کا مسئلہ ایک عقیدئہ لاینحل کہا جاتا ہے اور انہوں نے چانڈو خانے کی بے سروپا باتوں کو اس عقدئہ دشوار کے حل کرنے کے لیے ذریعہ بنا کر
Flag Counter