سلطان کو دھمکی دی کہ اگر ہمارے سردار احمد قیدوق کو قتل کر دیا گیا ہے تو ہم اس کے معاوضے میں سلطان بایزید کو قتل کیے بغیر نہ چھوڑیں گے، بایزید نے مجبور ہو کر احمد قیدوق کو جو ابھی قتل نہیں کیا گیا تھا، جان نثاری فوج کے سپرد کر دیا اور بظاہر اس کی عزت و تکریم بھی کی، مگر چند ہی روز کے بعد تمام جان نثاری فوج کو کسی مہم کے بہانے سے دور دراز کے سرحدی مقام پر بھیج کر اور دارالسلطنت کو فوج سے خالی پا کر احمد قیدوق کو قتل کر دیا، اس سردار کا قتل ہونا سلطنت عثمانیہ کے لیے مضر ثابت ہوا۔
۸۹۶ھ میں سلطنت عثمانیہ اور روس کے درمیان تعلقات قائم ہوئے یعنی زار ماسکو نے اپنا سفیر مناسب تحف و ہدایا کے ساتھ سلطان کی خدمت میں قسطنطنیہ کی جانب روانہ کیا اس سفیر کے ساتھ دربار قسطنطنیہ میں معمولی برتاؤ ہوا اور وہ چند روز رہ کر ماسکو کی جانب رخصت ہوا، سلطان بایزید کے عہد حکومت میں سلطنت عثمانیہ کی بحری طاقت میں بہت ترقی ہوئی، سلطان کی توجہ بحری طاقت کے بڑھانے کی طرف اس لیے زیادہ منعطف ہوئی کہ اس کو شہزادہ جمشید کی وجہ سے اندیشہ تھا کہ روڈس و اٹلی اور فرانس کی حکومتیں مل کر بحری حملہ کی تیاری پر آمادہ ہوں گی، ایک طرف اس نے ان سلطنتوں اور دوسری عیسائی حکومتوں سے صلح قائم رکھی اور دوسری طرف ان کے حملہ سے محفوظ رہنے کی تدابیر سے بھی غافل نہیں رہا اور اپنی بحری طاقت کو بڑھانے میں مصروف رہا۔
جس زمانہ میں جمشید عیسائیوں کے قبضے میں پہنچ چکا تھا، اندلس کے مسلمانوں یعنی شاہ غرناطہ نے سلطان بایزید سے امداد طلب کی کہ بحری فوج اور جنگی بیڑہ سے ہماری مدد کی جائے بایزید اندلسی مسلمانوں کی درخواست پر ان کو بہت بڑی مدد دے سکتا تھا، لیکن وہ محض اس وجہ سے کہ کہیں پوپ اور دوسرے عیسائی سلاطین جمشید کو آزاد کر کے میرے مقابلہ پر کھڑا نہ کر دیں متامل رہا اور جیسی کہ چاہیے تھی، ویسی مدد اندلس والوں کو نہ کر سکا، بایزید کی یہ کوتاہی ضرور قابل شکایت اور موجب افسوس ہے تاہم ہم کو یہ بات بھی فراموش نہ کرنی چاہیے کہ اس نے ایک معمولی سا بیڑہ جس میں چند جنگی جہاز شامل تھے اپنے امیر البحر کمال نامی کی قیادت میں اسپین کی طرف روانہ کیا تھا اس بیڑے نے ساحل اسپین پر پہنچ کر عیسائیوں کو تھوڑا سا نقصان پہنچایا مگر کوئی ایسا کار نمایاں انجام نہ دے سکا جس سے اسپین کے مسلمانوں کو کوئی قابل تذکرہ امداد پہنچتی۔ جب جمشید کا کام تمام ہو گیا اور بایزید کو اس کی طرف سے کوئی خطرہ باقی نہ رہا تو اس نے ان جزیروں اور ساحلی مقاموں پر جو یونان و اٹلی کے درمیان ریاست وینس کے تصرف میں تھے قبضہ کرنے کی کوشش کی اور وینس کے ساتھ بحری لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوا، ۹۰۵ھ میں ونیس کی بحری طاقت کو ترکی بیڑہ نے شکست فاش دی اور تمام جزیرے اس کے قبضے سے
|