قسطنطنیہ پر کفر کا فتویٰ لگایا اور سلطان کو لا مذہب اور دہریہ ٹھرایا، ان تنگ خیال، پست حوصلہ، تہی ظرف، دشمن اسلام فتوے بازوں کی نسل بہت پرانی ہے یہ لوگ کچھ اسی زمانہ یا سلطان فاتح کے زمانہ میں نہ تھے بلکہ اس سے بہت پہلے بھی دنیا میں موجود تھے جن کا ذکر اسی تاریخ کی گزشتہ جلد میں غالباً آ چکا ہے، سلطان فاتح کی نظر اپنی سلطنت کے ہر ایک صیغے اور ہر ایک محکمے پر رہتی تھی، مجرموں کو سزا دینے میں وہ بہت چست اور کار گذار اہل کاروں کی قدر دانی میں بہت مستعد تھا۔
اوپر بیان ہو چکا ہے کہ سلطان فاتح کو اپنا وقار قائم رکھنے اور تنہائی میں رہنے کا بہت شوق تھا، لیکن لڑائی کے ہنگامے میں وہ اپنے معمولی سپاہیوں کی مدد کرنے اور دل سوزی کے ساتھ ان کا ہاتھ بٹانے میں بالکل بے تکلف دوست اور معمولی لشکری کی مانند نظر آتا تھا، اس کے سپاہی اس پر جان قربان کرتے اور اس کو اپنا شفیق باپ جانتے تھے۔ سلطان فاتح کا قد درمیانہ، رنگ گندمی اور چہرہ عموماً اداس سا نظر آتا تھا مگر غصہ و غضب کے وقت نہایت دہشت ناک ہوتا تھا، دیانت و امانت اور عدل و انصاف کے خلاف کوئی حرکت کسی اہل کار سے سرزد ہوتی تو اس کو عبرتناک سزا دیتا، سلطان فاتح کی حدود سلطنت میں چوری اور ڈاکہ زنی کا نام و نشان تک باقی نہ تھا اس قدر عظیم الشان سلطنت اور وسیع مملکت میں سرکشی و بغاوت کے تمام فاسد مادوں اور بد امنی و بدچلنی کے تمام امکانات کا فنا ہو جانا سلطان فاتح کو ایک اعلیٰ درجہ کا مدبر و ملک دار فرماں رواں ثابت کرتا ہے حالاں کہ وہ ایک اعلیٰ درجہ کا فاتح اور جنگ جو سپہ سالار بھی تھا، پھر تعجب اور بھی بڑھ جاتا ہے، جب معلوم ہوتا ہے کہ سلطان فاتح کو شعر و شاعری کا بھی شوق تھا اور وہ مختلف اور متعدد زبانوں میں بلند پایہ اشعار کہہ لیتا تھا۔
|