اس جلسہ سے فارغ ہو کر سینٹ ایاصوفیہ کے گرجے میں آکر اپنی آخری عبادت میں مصروف ہوا اس کے بعد اپنے محل میں آیا جہاں یاس و ہراس چھایا ہوا نظر آتا تھا۔ وہاں چند لمحہ آرام کر کے وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا سینٹ رومانس کی طرف آیا جہاں محاصرین کے حملہ کا بہت زور تھا۔
ادھر سلطان محمد خان ثانی بھی نماز فجر سے فارغ ہو کر اور مجمع علماء اور باخدا لوگوں سے دعا کی فرمائش کر کے اپنی رکاب میں دس ہزار چیدہ لے کر حملہ آوری کے کام میں مصروف ہوا۔ سلطان محمد خان ثانی کے پیر و مرشد نے جو اس کے ساتھ مجمع علماء میں موجود تھے۔ اس روز اپنے لیے ایک الگ چھولداری نصب کرائی اور باہر ایک دربان کو بٹھا دیا کہ کسی شخص کو اندر نہ آنے دیا جائے اور خود دعا میں مصروف ہو گئے۔ حملہ ہر طرف سے شروع ہوا توپوں اور منجنیقوں نے جابجا شہر کی فصیل میں سوراخ کر دیئے اور محاصرین نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ ان رخنوں کے ذریعہ شہر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی مگر وہ ہر مرتبہ نہایت سختی کے ساتھ واپس لوٹا دیئے گئے۔ کئی مرتبہ عثمانی لشکر کے بہادر شہر کے برجوں اور فصیل کے شکستہ حصوں پر چڑھ جانے میں کامیاب ہوئے مگر اندر سے سپاہی شہری اور ان کی عورتیں اور بچے تک بھی لڑنے اور مدافعت کرنے میں مصروف تھے ہر طرف یہی حالت تھی اور سمندر و خشکی ہر طرف سے جوش و خروش کے ساتھ حملہ جاری تھا ایک عجیب ہنگامہ رست خیز برپا تھا۔ کشتوں کے پشتے لگ گئے تھے مگر محاصر و محصور دونوں میں سے کوئی بھی ہمت نہ ہارتا تھا۔ دوپہر کے قریب ہنگامہ کار زار میں سخت شدت پیدا ہو گئی اور سلطان محمد خان ثانی نے اپنے ایک وزیر یا مصاحب کو اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں روانہ کیا کہ یہ وقت خاص طور پر دعا اور روحانی امداد کا ہے۔ محصورین کی ہمت اور سخت مدافعت دیکھ کر حملہ آوروں کے دل چھوٹے جاتے تھے اور سلطان محمد خان ثانی کو اندیشہ تھا کہ اگر آج شہر فتح نہ ہوا تو پھر اس کا فتح ہونا سخت دشوار ہو گا کیونکہ حملہ آور اپنی پوری ہمت اور طاقت صرف کر چکے تھے۔ بادشاہ کا فر ستادہ جب اس مرد خدا آگاہ کی چھولداری کے قریب پہنچا تو دربان مانع ہوا اس نے سختی کے ساتھ دربان کو ڈانٹا اور کہا کہ میں ضرور حاضر خدمت ہو کر سلطانی پیغام پہنچاؤں گا کیونکہ یہ بڑا نازک وقت اور خطرہ کا مقام ہے۔ یہ کہہ کر سلطانی فرستادہ چھولداری میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ وہ بزرگ سر بسجود اور دعا میں مصروف ہیں اس کے داخل ہونے پر انہوں نے سر اٹھایا اور کہا کہ شہر قسطنطنیہ فتح ہو چکا۔ اس کو اس بات کا یقین نہ آتا تھا۔ مگر وہاں سے واپس ہو کر دیکھا تو واقعی فصیل شہر پر سلطانی جھنڈا لہرا رہا تھا بات یہ ہوئی کہ جس وقت سلطان نے استمداد دعا کے لیے اپنے وزیر کو روانہ کیا وہ نہایت نازک وقت تھا ٹھیک اسی وقت فصیل شہر کا وہ حصہ جو سلطان کے سامنے تھا یکایک خود بخود گر پڑا اور اس کے گرنے سے خندق پر ہو کر شہر میں داخل
|