پورے طور پر مستعد رہو۔ یہ کہہ کر سلطان بایزید خان یلدرم نے ان تمام شہزادوں اور سرداروں کو رہا کر دیا۔
اس کے بعد وہ اپنی فوج لے کر یورپ میں پہنچا اور اپنے اس ارادے کی تکمیل میں مصروف ہوا جس کا اوپر ذکر آ چکا ہے۔ سب سے پہلے اس نے یونان کا رخ کیا کیونکہ یونان کے عیسائی مجاہدین خود مختارانہ طور پر قیصر قسطنطنیہ کے ایماء سے نکوپولس کی لڑائی میں عیسائی لشکر میں شامل تھے۔ تھرموپلی کے درے میں سے فاتحانہ گزرتا ہوا ایتھنز کی دیواروں کے نیچے پہنچا اور ۸۰۰ھ میں ایتھنز کو فتح کر کے تیس ہزار یونانیوں کو ایشیائے کوچک میں آباد ہونے کے لیے روانہ کیا۔ جب کہ سلطان خود فوج لے کر تھسلی کو فتح کرتا ہوا ایتھنز کی طرف گیا تو اس نے اپنے سپہ سالاروں کو آسٹریا اور ہنگری کی طرف فوجیں دے کر روانہ کر دیا تھا۔ جنہوں نے ان ملکوں کے اکثر حصوں کو فتح کر لیا تھا۔ اب سلطان بایزید خان کو قیصر قسطنطنیہ کی ریشہ دوانیوں اور نیش زینون کا بخوبی علم ہو چکا تھا لہٰذا اس نے ایتھنز کی فتح کے بعد قسطنطنیہ کے فتح کر لینے اور اس عیسائی سلطنت کے مٹا دینے کا ارادہ کیا۔ لیکن قیصر نے اس مرتبہ بھی اپنی ہوشیاری سے کام لیا اور فوراً سلطان کا باج گزار بن کر وعدہ کیا کہ دس ہزار ڈاکٹ سالانہ بطور خراج ادا کیا کروں گا۔ نیز قسطنطنیہ میں ایک مسجد مسلمانوں کے لیے بنوادوں گا اور ایک قاضی مقرر کر دوں گا جو مسلمانوں کے تمام معاملات میں حاکم ہو گا۔ مسلمان تاجروں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے پائے گی۔ ان شرائط پر سلطان بایزید خان یلدرم رضا مند ہو گیا اور اس نے قسطنطنیہ چھوڑ دیا۔ ورنہ جو کام سلطان محمد خان ثانی فاتح قسطنطنیہ کے ہاتھوں انجام پذیر ہوا وہ ۸۰۰ھ میں سلطان بایزید خان یلدرم کے ہاتھوں سے پورا ہو چکتا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ تیمور خراسان و ایران میں اپنی حکومت کی بنیاد مضبوط کر کے اور ترکمانوں کی گوشمالی سے فارغ ہو کر اپنے مقبوضات کو سلطان بایزید خان یلدرم کے مقبوضات کی سرحد تک پہنچا کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا تھا۔ قیصر قسطنطنیہ جو یورپ میں اپنی ریشہ دوانیوں اور عیسائیوں کی زور آزمائیوں کے نتائج جنگ کسووا اور جنگ نکوپولس میں دیکھ چکا تھا۔ اب اپنی اس مجبوری اور ذلت کو دیکھ کر ایک مرتبہ پھر آمادہ کوشش ہوا۔
سلطان بایزید خان یلدرم جب یونان اور ایتھنز کو فتح کر چکا اور قیصر کا حال بہت ہی پتلا ہونے لگا تو اس نے فوراً ایک قاصد تیمور کی خدمت میں روانہ کیا اور اس کو ایک خط دیا جس میں لکھا تھا کہ میری سلطنت بہت پرانی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی قسطنطنیہ کے اندر ہماری سلطنت موجود تھی۔ اس کے بعد بنوامیہ اور بنوعباس کے زمانے میں بھی خلفاء سے بارہا ہماری صلح ہوئی اور کسی نے قسطنطنیہ کے لینے کا قصد نہیں فرمایا۔ لیکن اب عثمانی سلطان نے ہمارے اکثر مقبوضات چھین لیے ہیں اور ہمارے دارالسلطنت قسطنطنیہ پر اس کا دانت ہے۔ ایسی حالت میں سخت مجبور ہو کر ہم
|