دیتا تھا۔ خود تکلیف اٹھا کر دوستوں کو راحت پہنچانے کا شوق رکھتا تھا۔ اس لیے اس کو اپنے جان نثاروں کی جمعیت فراہم کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔ اس نے اپنے لڑکپن کے دوستوں کو اپنی بادشاہت کے وقت مطلق فراموش نہیں کیا اور سب کو اعلیٰ مدارج پر پہنچایا۔ بادشاہت کی حالت میں بھی وہ ایک معمولی سپاہی کے لباس میں نظر آتا تھا۔ معمولی سپاہی کی طرح زمین پر سونے اور خندق کھودنے سے اس کو عار نہ تھا۔ اس کے خیمے اور ایک معمولی سپاہی کے خیمے میں کوئی فرق نہ ہوتا تھا۔ اس کو عیاشی و بدچلنی سے سخت نفرت تھی اور استقلال اولوالعزمی اس کے ہر ایک کام اور ہر ایک بات سے ٹپکتی تھی۔ یہی سبب تھا کہ وہ نہایت پست اور ادنیٰ درجہ سے ترقی کر کے ملک ایران کے بہت بڑے حصے کا مطلق العنان فرماں روا بن گیا تھا اور بغداد کا دربار خلافت اس کے استیصال پر قادر نہ ہو سکا تھا۔
یعقوب بن لیث صفار کی وفات کے بعد اس کا بھائی عمرو بن لیث صفار بھائی کا جانشین ہوا اور اس نے اپنی حدود حکومت کو اور بھی وسیع کیا۔ عمرو بن لیث میں اگرچہ اپنے بھائی کی نسبت عقل و دانائی زیادہ بیان کی جاتی ہے، مگر وہ ان سپاہیانہ اخلاق اور سادہ زندگی بسر کرنے میں اپنے بھائی سے کمتر تھا۔ خلیفہ معتمد کے بھائی موفق نے ایک مرتبہ اس کو شکست بھی دی، مگر اس نے جلد اپنی حالت کو پھر درست کر لیا اور دربار خلافت کے لیے وبال جان بن گیا۔ آخر خلیفہ نے ماوراء النہر کے حاکم اسمٰعیل سامانی کو عمرو بن لیث کے مقابلہ پر آمادہ کیا۔ عمرو بن لیث ستر ہزار سوار لے کر اسمٰعیل سامانی کے استیصال پر آمادہ ہوا اور دریائے جیحون کو عبور کیا۔ اسمٰعیل سامانی صرف بیس ہزار سواروں کے ساتھ مقابلہ پر آیا عین معرکہ جنگ کے وقت عمرو بن لیث کا گھوڑا اپنے سوار کی منشاء کے خلاف اس کو اسمٰعیل سامانی کے لشکر میں لے گیا اور وہاں وہ بڑی آسانی سے گرفتار کر لیا گیا۔
صیدرا چوں اجل آید سوئے صیاد ود
اسمٰعیل سامانی نے عمرو کو گرفتار کر کے بغداد بھیج دیا اور اس طرح دولت صفاریہ کی عظمت و شوکت کا قریباً خاتمہ ہو گیا۔ یعقوب بن لیث اور عمرو بن لیث میں سب سے بڑا فرق یہ تھا کہ یعقوب ایک صعوبت کش اور سوکھی روٹیاں چبا کر گذر کر لینے والا سپاہی تھا اور عمرو بن لیث ایک شان و شوکت اور سامان عیش کے ساتھ بسر کرنے والا بادشاہ تھا۔ اس جگہ ایک لطیفہ کا نقل کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔
جس روز عمرو بن لیث گرفتار ہوا ہے اس روز صبح کے وقت اس کے باورچی نے عرض کیا کہ باورچی خانہ کا سامان اٹھانے کے لیے تین سو اونٹ ناکافی ہیں ۔ مجھ کو باربرداری کے کچھ اونٹ اور دیئے جائیں ۔ اسی شام کو جب کہ عمرو بن لیث گرفتار ہو چکا تھا۔ اس نے اپنے باورچی سے جو اس کے ساتھ قید خانہ میں
|