Maktaba Wahhabi

692 - 868
قراقورم میں تاج شاہی اپنے سر پر رکھا( قویلا خان جب قراقورم کی طرف متوجہ ہوا تو ادھر قراقورم سے سے ارتق بوقا بھی فوج لے کر مقابلہ کے لیے نکلا۔ مقام کلوران میں دونوں بھائیوں کا مقابلہ ہوا۔ سخت لڑائی کے بعد ارتق بوقا کو شکست فاش حاصل ہوئی مگر وہ میدان جنگ سے اپنی جان بچا کر لے گیا اور قویلہ خان نے قراقورم میں داخل ہو کر تخت سلطنت پر جلوس کیا۔ ارتق بوقانے ختا کی طرف جا کر فوج جمع کی اور پھر اپنی حالت درست کر کے آیا غرض چار سال تک ارتق بوقا اور قویلہ خان کے درمیان لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر ارتق بوقا گرفتار ہو کر قید ہوا اور اسی قید میں مر گیا۔ قویلہ خان نے ۶۵۵ھ میں تخت نشین ہوتے ہی ہلاکو خان کے پاس حکم بھیج دیا تھا کہ دریائے جیحوں سے ملک شام تک کے علاقے کی حفاظت و نگرانی تمہارے ذمہ ہے اور تم کو اس علاقے کی حکومت سپرد کی جاتی ہے۔ ارتق بوقا اور قویلہ خان کی جنگ و پیکار کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغلوں کی مرکزی حکومت اور دربار قراقورم کا رعب کم ہو گیا اور جہاں جہاں جو سردار مامور تھا وہ اپنے آپ کو خود مختار اور آزاد بادشاہ سمجھنے لگا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ خاندان چنگیزی کے کئی شہزادے اور سربر آور دہ لوگ علانیہ اسلام کو قبول کر چکے تھے اور اسلام نے مغلوں کے اندر پھیلنا شروع کر دیا تھا۔ قویلا خان نے ارتق بوقا کے فتنہ سے فارغ ہو کر ملک چین کی طرف فوج کشی کی اور چند سال کی لڑائیوں کے بعد تمام ملک چین کو فتح کر کے بجائے قراقورم کے ملک چین میں ایک نیا شہر خان بالیغ کے نام سے آباد کر کے اپنا دارالسلطنت بنایا اور سیام وبرہما و جاپان وغیرہ ملکوں سے خراج وصول کیا۔ قویلا خان نے مختلف مذاہب اور مختلف قوموں کے چار وزیر مقرر کیے۔ جن میں ایک مسلمان یعنی امیر احمد بنا کتی بھی تھا۔ قویلا خان کی حکومت اور شہنشاہی کو تمام مغل سلاطین تسلیم کرتے اور اس کے احکام کو مانتے تھے۔ مغلوں کی سلطنت چین سے لے کر یورپ تک پھیلی ہوئی تھی اسلامی سلطنت بہت ہی ضعیف حالت میں تھی۔ لہٰذا عیسائی، مجوسی اور یہودی مغلوں کے دربار میں رسوخ حاصل کر کے اسلام اور مسلمانوں سے ان کو متنفر کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ اباقا خان ابن ہلاکو خان نے خراسان سے قویلا خان کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ مجھ کو یہودیوں اور مجوسیوں نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کی کتاب قرآن مجید میں لکھا ہے کہ مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو۔ آپ کا اس تعلیم کے متعلق کیا خیال ہے یعنی اگر مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ ہم کو جہاں پائیں قتل کریں تو اس حالت میں مسلمانوں کی قوم کا دنیا میں باقی رہنا اندیشہ سے خالی نہیں ۔ قویلا خان نے اس عرض داشت کو پڑھ کر بعض مسلمان علماء کو بلایا اور پوچھا کہ کیا قرآن مجید میں ایسا حکم موجود ہے؟ انہوں نے کہا کہ ’’ہاں یہ حکم موجود ہے۔‘‘ قویلا خان نے
Flag Counter