گرد کے علاقے پر قبضہ جمانا شروع کر دیا۔ انہی ایام میں ایک شخص منور نامی جو سامانی خاندان سے تھا۔ قہستان کا گورنر یا ناظم تھا۔ اس کی ایک سلجوقی وائسرائے سے مخالفت ہو گئی۔ دونوں کی نزاع نے یہاں تک طول کھینچا کہ منور نے حسن بن صباح سے امداد طلب کی۔ حسن بن صباح نے بلا تامل اپنی فوج بھیج کر قہستان پر قبضہ کر لیا۔ اسی طرح رفتہ رفتہ حسن بن صباح کی طاقت و شوکت نے ترقی اختیار کی۔ ادھر ملک شاہ کی وفات کے بعد سلجوقی سرداروں میں خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بجائے اس کے کہ وہ حسن بن صباح کا استیصال کرتے اپنی خانہ جنگیوں میں اس سے مدد طلب کرنے لگے۔ اس طرح حسن بن صباح کی حکومت و سلطنت کا سکہ جم گیا، سلطان برکیارق نے اپنے بھائی محمد کے مقابلہ میں ان باطنیوں سے امداد طلب کر کے اور بھی زیادہ ان کی عظمت کو بڑھا دیا۔ مگر چند ہی روز کے بعد سلطان برکیارق کو ان باطنیوں کے قتل عام کا حکم دینا پڑا۔
ادھر احمد بن عطاش نے قلعہ شاہ در پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کر لی تھی۔ آخر سلجوقیوں نے احمد بن عطاش اور اس کے ساتھیوں کو ہر طرف سے محاصرہ کر کے مجبور کر دیا۔ بہت سے باطنیوں نے سلطان سلجوقی سے اس شرط پر امان کی درخواست کی کہ ہم سب حسن بن صباح کے پاس قلعہ الموت میں چلے جائیں گے اور نواح اصفہان کو بالکل خالی کر دیں گے چنانچہ ان کو اسی شرط پر حسن بن صباح کے پاس جانے کی اجازت دی گئی۔ احمد بن عطاش کو گرفتار کر کے قتل کر دیا گیا اور اس کی کھال میں بھس بھرا گیا۔ اس کی بیوی نے خود کشی کر لی۔ اس طرح باطنیہ اصفہان کا تو خاتمہ ہو گیا مگر حسن بن صباح کی طاقت و جمعیت میں خوب اضافہ ہو گیا۔ کیونکہ اب وہی تمام باطنیوں کا مرکز اور قبلہ توجہ رہ گیا تھا۔ باطنیوں کے ہزار ہا افراد بحیثیت داعی شام و عراق و فارس میں پھیلے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں علانیہ انہوں نے اپنی دعوت کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ بعض قلعوں پر بھی وہ قابض و متصرف ہو گئے تھے۔ مگر رفتہ رفتہ مسلمانوں نے ہر طرف سے ان پر حملہ آور ہو کر تمام قلعے ان سے چھین لیے اور حکومت و قوت ان سے جدا کر لی، لیکن الموت اور اس کے نواح پر حسن بن صباح کا قبضہ برابر جاری رہا۔ حسن بن صباح کا صحیح نام و نسب اس طرح ہے حسن بن علی بن احمد بن جعفر بن حسن بن صباح الحمیری سلجوقیوں کی خانہ جنگیوں اور ضعف و اختلال نے باطنیوں کی حکومت کو مستقل و پائدار ہونے کا موقع دیا۔ جس کو بعد میں فدائیوں کی سلطنت سلطنت اسمٰعیلیہ، سلطنت حشاشین وغیرہ ناموں سے یاد کیا گیا۔ حسن بن صباح جس طرح اس سلطنت و حکومت کا بانی تھا اسی طرح وہ اپنے فرقہ اور مذہب کا بھی بانی سمجھا گیا۔ اس نے عام باطنیوں کے خلاف بعض نئے نئے طریقے اعمال و عبادات میں ایجاد کیے۔ اس کے تمام مریدین اس کو سیّدنا کہتے تھے۔ عام
|