عبدالرحمن بن حبیب کے صقلیہ کی طرف روانہ کیا۔ عبدالرحمن بن حبیب نے ساحل پر اتر کر فتوحات کا سلسلہ شروع کیا اور اندرون جزیرہ میں شہر سرقوسہ تک جو صقلیہ کا دارالسلطنت تھا پہنچ گیا۔ حاکم صقلیہ نے عبدالرحمن بن حبیب کو جزیہ دینا منظور کیا۔ اور اطاعت و فرما نبرداری کا اقرار کر کے عبدالرحمن سرقوسہ سے سالماً غانماً ساحل پر اپنے باپ حبیب بن عبیداللہ کے پاس واپس آیا۔ اس طرح جزیرہ صقلیہ کو مفتوح و باج گذار بنا کر دونوں باپ بیٹے افریقہ واپس آئے۔ مگر چند روز بعد ہی یہ جزیرہ اسلامی حکومت و سیادت کے دائرے سے خارج ہو گیا۔ یہ فتح بھی محض عارضی اور ہنگامی ہی تھی۔ ۱۳۵ھ میں ایک مرتبہ پھر حاکم افریقہ نے اس جزیرہ پر فوج کشی کی۔ اس کے بعد ۲۱۲ھ تک مسلمانوں کو اس جزیرہ کی طرف متوجہ ہونے کا موقع نہیں ملا۔
اب زیادۃ اللہ کے پاس جب فیمی آیا اور اس جزیرہ کے فتح کرنے کی ترغیب دی تو زیادۃ اللہ نے اسد بن فرات قاضی قیروان کو سو جہاز دے کر جو فیمی کے جہازوں کے علاوہ تھے صقلیہ کی طرف بھیجا اور اس حکم کے ساتھ بھیجا کہ صقلیہ کو فتح کر کے وہاں مستقل طور پر اسلامی حکومت قائم کی جائے اور رومی حکومت کا نام و نشان مٹا دیا جائے۔ نصف ربیع الاول ۲۱۲ھ کو یہ جنگی بیڑہ صقلیہ کی جانب روانہ ہوا اور تیسرے روز جزیرہ صقلیہ کے ساحل پر اسلامی فوج جا اتری۔ بلاطہ نے جو اب جزیرہ صقلیہ کا بادشاہ بن گیا تھا مقابلہ کے لیے فوج بھیجی۔ بلاطہ نے قیصر کی خدمت میں اظہار فرماں برداری کی درخواست بھیج کر باقاعدہ سند حکومت اور امداد منگا لی تھی۔ لڑئیوں کا سلسلہ جاری ہوا۔ ہر مقام پر عیسائی لشکر کو شکست دیتے ہوئے مسلمان آگے بڑھے۔ فیمی مذکور اسلامی لشکر کے ہمراہ تھا۔ مگر اب مسلمانوں کی پیہم فتوحات اور عیسائیوں کی ہزیمتوں سے دل ہی دل میں افسردہ و رنجیدہ ہوتا تھا۔ اس نے در پردہ عیسائیوں کو ضروری خبریں پہنچانی اور مشورے دینے شروع کیے۔ جس سے اسلامی لشکر کے لیے مشکلات پیدا ہوئیں مگر ان لڑائیوں میں بلاطہ مقتول ہوا اور عیسائیوں نے خود ہی دھوکا دے کر اس کے بعد فیمی کو الگ بلا کر قتل کر دیا۔ بلاطہ کی جگہ عیسائیوں نے فوراً اپنا دوسرا سردار انتخاب کیا اور سرقوسہ کو ہر قسم کی تیاری کے بعد خوب مضبوط کر کے مسلمانوں کا مقابلہ سختی سے جاری رکھا۔ قاضی اسد بن فرات نے سرقوسہ کا محاصرہ کیا۔ اس محاصرہ کے دوران میں قاضی اسد بن فرات کا شعبان ۲۱۳ھ میں انتقال ہوا۔
لشکر اسلام نے قاضی اسد بن فرات کے انتقال پر محمد بن ابوالجواری کو اپنا سردار منتخب کیا۔ اس کے بعد ہی عیسائیوں کی امداد اور مسلمانوں کے مقابلہ کی غرض سے قسطنطنیہ سے فوجیں جنگی جہازوں میں آ گئیں ۔ سخت لڑائی ہوئی۔ لشکر اسلام نے اس نووارد فوج کو شکست دے کر بھگا دیا اور محاصرہ کو سختی سے
|