دو سال کے بعد ۴۸۳ھ میں یوسف بن تاشفین عیسائیوں کو سزا دینے کے لیے پھر اندلس میں آیا، کیونکہ اندلس کے مسلمان سلاطین یوسف بن تاشفین کو اپنا سر پرست تسلیم کر چکے تھے اور عیسائیوں کو اپنے مقبوضات پر حملہ آور دیکھ کر یوسف بن تاشفین سے خواہان امداد ہوا کرتے تھے، اس مرتبہ یوسف بن تاشفین عیسائی فوجوں کو پیچھے ہٹاتا اور شکست دیتا ہوا شہر طلیطلہ کے سامنے جا پہنچا اور اس کا محاصرہ کر لیا، الفانسو چہارم نے طلیطلہ کو اپنا دارالسلطنت بنا لیا تھا اور وہ طلیطلہ میں موجود تھا، یوسف نے طلیطلہ کا محاصرہ کر کے امرائے اندلس سے امداد چاہی کہ محاصرے کو کامیاب بنانے میں شریک ہوں ، لیکن کسی نے مدد نہ کی، بالخصوص عبداللہ بن بلکین بادشاہ غرناطہ نے کہ اس پر یہ ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی تھی مطلق التفات نہ کیا، یوسف کو مجبوراً محاصرہ اٹھا کر طلیطلہ سے واپس ہونا پڑا اور اس نے امرائے اندلس کو ٹھیک بنانا ضروری سمجھا، چنانچہ اس نے عبداللہ حاکم غرناطہ اور اس کے بھائی تمیم حاکم مالقہ کو گرفتار کر لیا اور افریقہ بھیج دیا۔
اس کے بعد ماہ رمضان المبارک ۴۸۳ھ میں یوسف بن تاشفین اپنے بھتیجے اور سپہ سالار سیر بن ابی بکر بن تاشفین کو مع فوج اندلس میں عیسائیوں کی سرکوبی کے لیے چھوڑ کر خود افریقہ چلا گیا، اس سپہ سالار نے الفانسو پر فوج کشی کی اور کئی مقامات اس سے لڑ کر چھین لیے، اس جہاد میں اندلس کے مسلمان امراء کو سیر بن ابی بکر کی امداد کرنی لازمی تھی، مگر ان بدبختوں نے اس کی امداد اور عیسائیوں کے مقابلے سے صاف انکار کر دیا، سیر بن ابی بکر نے امراء اندلس کی نالائقیوں پر کوئی التفات نہ کر کے اپنی فتوحات اور عیسائیوں کے مقابلے کا سلسلہ برابر جاری رکھا، یہاں تک کہ اس نے ایک معقول حصہ ملک مع صوبہ پرتگال عیسائیوں سے چھین لیا اور بعض عیسائی رئیسوں نے اقرار اطاعت بھی لے لیا، جب اس سپہ سالار کے حصے میں ایک حصہ ملک بھی آ گیا اور اندلس میں اس کے قدم اچھی طرح جم گئے تو اس نے یوسف بن تاشفین کو لکھا کہ ہمارے قبضے میں جزیرہ نما کے اندر ایک کافی رقبہ آ گیا ہے، جو ہم نے عیسائیوں سے فتح کیا ہے، لیکن اندلس کے مسلمان امراء نے ہماری مطلق امداد نہیں کی اور وہ بجائے ہمارے عیسائیوں کے ساتھ مودت و محبت کے تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں اور اپنے طرز عمل سے اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں ، ان کی نسبت بھی کوئی حکم صادر فرمایا جائے۔
یوسف بن تاشفین نے سیر بن ابی بکر کو لکھا کہ تم عیسائیوں پر جہاد کے سلسلے کو جاری رکھو اور امرائے اندلس سے پھر امداد و اعانت کی خواہش کرو، اگر وہ اس کام میں تمہارے شریک ہو جائیں تو ان سے تعرض نہ کرو اور اگر وہ عیسائیوں کے مقابلے میں تمہاری حمایت و ہمدردی نہ کریں تو تم ان کے ملکوں کو بھی ان سے چھین لو، مگر اس بات کا خاص طور پر لحاظ رکھو کہ اول ان مسلمان امراء کی ریاستوں پر قبضہ کرو جو
|